"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
شريعت اسلاميہ نے لوگوں كى عزت كى حفاظت كى ہے كہ لوگ كسى كى عزت پر حملہ آور نہ ہوں، اس ليے زنا كى حد مشروع ہوئى، اور بہتان كى حد قذف بھى مشروع ہوئى ہے، تا كہ كوئى بھى كسى دوسرے كى عزت پامال كرنے كى جرات نہ كرے، جب اسے علم ہو گا اس كا انجام كوڑے يا موت تك رجم ہے تو وہ اس كے قريب نہيں جائيگا، ليكن اس صورت ميں ہى ايسا كريگا جب وہ ذلت و رسوائى اور عار و موت كو طہارت و پاكيزگى اور عزت و سلامتى پر افضل سمجھتا ہو.
اسى طرح كوئى شخص زبانى طور پر بھى لوگوں كى عزت پر حملہ كرنےكى جرات نہيں كريگا جب اسے علم ہو كہ اس كو حد قذف لگائى جائيگى، اس كى گواہى بھى رد كر دى جائيگى، اور وہ فاسق شمار ہوگا، صرف اسى صورت ميں كہ وہ باطل پر جرات كرے، اور برائى و سوء اور منكر كو زبان كى طہارت اور عفت پر ترجيح دينے پر راضى ہو.
سوال كرنے والى بہن: آپ نے اپنى نند كے متعلق جو كچھ كہا ہے وہ دو چيزوں سے خالى نہيں:
اول:
آپ كى نند كا جرم شرعى طور پر ثابت نہ ہو، بلكہ صرف لوگوں كى باتيں اور بہتان ہوں.
دوم:
يہ جرم اس پر ثابت ہو چكا ہو.
اور اس جرم كا ثبوت لوگوں كے دعوؤں سے نہيں اور نہ ہى ان كى جھوٹى اور گھڑى ہوئى باتوں سے ہو گا، بلكہ اس كے ثبوت كے ليے كوئى ايك شرعى طريقہ ہونا ضرورى ہے تا كہ عزتوں كى حفاظت ہو، اور بے وقوف قسم كے لوگوں كے طعن سے وہ محفوظ رہ سكے، اور محرم مرد وغيرہ كے ساتھ زنا جيسے جرم كے ثبوت كا طريقہ يہ ہے كہ:
1 - چار مردوں كى گواہى دينا كہ انہوں نے عضو تناسل كو عورت كى شرمگاہ ميں اس طرح ديكھا ہے جس طرح سرمہ لگانے والى سلائى سرمہ دانى ميں ہوتى ہے.
2 - زانيہ عورت خود اعتراف كر لے كہ اس نے يہ جرم كيا ہے.
دوسرى جانب سے اعتراف اس كى دليل نہيں ہو گى مد مقابل بھى زنا كا مرتكب ہوا ہے، حتى كہ وہ خود اپنے فعل كا اعتراف نہ كر لے.
اس بنا پر اگر تو يہ جرم آپ كى نند كے خلاف ايسا دعوى ہے جو گواہوں كى گواہى سے ثابت نہيں ہو سكا اور نہ ہى آپ كى نند كے اعتراف سے يہ جرم ثابت ہوا ہے تو آپ كا اپنى نند كے متعلق اپنے بچوں كو يہ كہنا بہتان شمار كيا جائيگا، جس كى وجہ سے آپ شرعى حد كى مستحق ٹھرتى ہيں، اس ليے آپ پر لازم ہے كہ آپ اپنے رب سے توبہ و استغفار كريں، اور اپنى اولاد كے سامنے اپنے آپ كو جھوٹا كہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ، اور كبھى بھى ان كى گواہى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں، مگر وہ لوگ جو اس كے بعد توبہ كر ليں اور اپنى اصلاح كر ليں يقينا اللہ تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے النور ( 4 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ پاكدامن بھولى بھالى بايمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہيں وہ دنيا و آخرت ميں ملعون ہيں، اور ان كے ليے بڑا بھارى عذاب ہے النور ( 23 ).
امام ابن جرير طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو لوگ آزاد مسلمان اور پاكدامن عورتوں پر طعن كرتے اور ان پر زنا كى تہمت لگاتے ہيں اور پھر اس تہمت كے چار عادل گواہ پيش نہيں كرتے كہ انہوں نے ان عورتوں كو ايسا كرتے ديكھا ہے، تو جنہوں نے يہ تہمت لگائى ہے انہيں اسى كوڑے مارو، اور ان كى گواہى ہميشہ كے ليے قبول مت كرو، يہى لوگ ہيں جو اللہ تعالى كے حكم كى مخالفت كرنے والے ہيں، اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى سے نكل كر فاسق بن گئے ہيں "
ديكھيں: تفسير طبرى ( 19 / 102 ).
اور شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس آيت ميں قولہ تعالى: " يرمون "
كا معنى پاكدامن عورتوں صريح زنا كى تہمت لگانا ہے، يا پھر جو زنا كے ضمن ميں آتى ہيں، مثلا پاكدامن عورت كے بچے كا باپ كے نسب سے ہونے كى نفى كرنا؛ كيونكہ اگر وہ اپنے باپ كا نہيں تو پھر زنا سے ہوا، اور يہ بہتان ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالى نے تين احكام واجب كيے ہيں:
اول:
بہتان لگانے والے كو اسى كوڑے مارنا.
دوم:
اس كى گواہى قبول نہ كرنا.
سوم:
اس پر فاسق ہونے كا حكم لگانا.
اگر يہ كہا جائے: اس " يرمون المحصنات " كا معنى اور تفسير صريح زنا كى تہمت لگانے يا اس كے مستلزمات يعنى نسب كى نفى كے معنى كى قرآن مجيد ميں دليل كہاں ہے ؟
تو اس كا جواب يہ ہے:
قرآن مجيد ميں اس پر دو قرينے دلالت كرتے ہيں:
پہلا قرينہ:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
پھر وہ چار گواہ نہ پيش كر سكيں .
يہ يرمون المحصنات يعنى پاكدامن عورتوں پر بہتان لگانے كے الفاظ كے بعد آيا ہے، اور يہ معلوم ہے كہ بہتان ميں سے كوئى ايسى چيز نہيں جس كا ثبوت چار گواہوں پر موقوف ہو، صرف زنا ہى ايسى چيز ہے جس كے ليے چار گواہ ہونا ضرورى ہيں.
اور جو يہ كہے كہ: لواطت اور بدفعلى كا حكم بھى زنا كا حكم ہے تو يہ احكام لواطت كرنے والے پر بھى جارى كيے جائينگے.
دوسرا قرينہ:
يہ ہے كہ: " المحصنات " پاكدامن عورتوں كا ذكر زانيہ عورتوں كے بعد ہوا ہے، اور وہ اس فرمان ميں ہے:
زانى مرد زانى عورت اور مشرك عورت كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتا . النور ( 3 ).
اور فرمان بارى تعالى ہے:
زانى عورت اور زانى مرد دونوں ميں سے ہر ايك كو سو كوڑے مارو النور ( 2 ).
تو محصنات يعنى پاكدامن عورتوں كا زانى عورتوں كے بعد ذكر كرنا ان كى پاكدامنى پر دلالت كرتا ہے، يعنى زنا سے ان كى عفت و عصمت پر دلالت كرتا ہے، اور جو لوگ ان پر تہمت لگاتے ہيں تو وہ ان پر زنا ہى كى تہمت لگا رہے ہيں "
ديكھيں: اضواء البيان ( 5 / 431 ).
ليكن اگر آپ كى نند پر يہ جرم چار عادل گواہوں كى گواہى سے ثابت ہو چكا ہے كہ اس نے اس جرم كا ارتكاب كيا ہے، يا پھر اس نے خود اس جرم كا اعتراف كيا ہو تو پھر آپ كى نند ايك بہت برے قبيح جرم كى مرتكب ٹھرى ہے كيونكہ زنا كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اور پھر محرم كے ساتھ زنا كرنا تو اور بھى زيادہ قبيح اور شنيع جرم ہے اور اس كا گناہ عام شخص كے ساتھ زنا سے زيادہ ہے.
ابن نجيم حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہر قسم كا زنا حرام ہے، اور محرم كے ساتھ زنا كرنے كى حرمت اور بھى زيادہ شديد اور سخت ہے، اس ليے ہر قسم كے زنا سے اجتناب كرنا چاہيے "
ديكھيں: البحر الرائق شرح كنز الدقائق ( 8 / 221 ).
اور ابن حجر الہيتمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مطلق طور پر سب سے زيادہ عظيم زنا محرم كےساتھ زنا كرنا ہے "
ديكھيں: الزواجر عن اقتراف الكبائر ( 2 / 226 ).
اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ:
جس نے محرم كے ساتھ زنا كيا تو اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ، اور جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ محرم عورت كے ساتھ زنا كرنے كى سزا وہى ہے جو كسى اجنبى عورت كے ساتھ زنا كرنے كى ہے اس ليے اگر غير شادى شدہ ہو تو اسے سو كوڑے مارے جائينگے، اور اگر شادى شدہ ہو تو اسے موت تك رجم كياجائيگا.
امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ جس كسى نے بھى كسى محرم عورت كے ساتھ زنا كيا اس پر حد لگائى جائيگى، صرف وہ حد كے طريقہ ميں مختلف ہيں كہ آيا اسے ہر حالت ميں قتل كيا جائيگا يا كہ اسے زنا كى حد لگائى جائيگى، اس ميں دو قول ہيں:
اماا شافعى اور امام مالك اور امام احمد ـ ايك روايت ميں ـ كہتے ہيں كہ اس كى حد زنا كى حد ہے.
اور امام احمد ـ دوسرى روايت ميں ـ اور اسحاق اور اہل حديث ميں سے ايك جماعت كہتى ہے كہ ہر حالت ميں اس كى حد قتل ہے.
ديكھيں: الجواب الكافى ( 123 ).
آپ كى نند پر اس جرم كے ثبوت كے آثار ملنے كى بنا پر آپ نے اس كے حق ميں جو كچھ كہا ہے وہ بہتان شمار نہيں ہو گا، ليكن اگر اس نے اپنے اس فعل سے پكى اور سچى توبہ كر لى ہو، يا پھر اس پر شرعى حد ـ اگر كوڑے ہوں ـ لگائى جا چكى ہو ـ.
اور اگر اس كا جرم ثابت ہو چكا ہو اور اس نے توبہ نہ كى ہو اور نہ ہى اس كو حد لگائى گئى ہو تو آپ كے ليے اپنى اولاد اور دوسروں كو جو اس سے متاثر ہو سكتے ہيں يا اس كے ساتھ رہنے اور اس سے ملنے سے ان كے اخلاق بگڑ سكتے ہوں انہيں بچنے كا كہنا جائز ہے، اور يہ حرام كردہ غيبت ميں شامل نہيں ہو گا، بلكہ يہ جائز غيب ميں سے ہے:
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ علم ميں ركھيں كہ اگرچہ غيبت حرام ہے، ليكن مصلحت، اور كسى شرعى غرض كى بنا پر يہ جائز ہو جاتى ہے جب اس كے بغير اس تك پہنچنا ممكن ہو اور يہ چھ اسباب ميں سے ايك سبب كى بنا پر جائز ہو گى:
......
چوتھا سبب:
مسلمانوں كو اس كے شر سے بچانا اور انہيں نصيحت كرنا.
ديكھيں: الاذكار للنووى ( 792 ).
اس كا سبب شخصى اختلاف نہ ہو بلكہ نصيحت كى غرض سے ايسا كيا جائے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور يہ سب كچھ وعظ و نصيحت اور اللہ كى خوشنودى و رضا كے ليے ہونا چاہيے، نہ كہ كسى انسان كے ساتھ شخصى اختلاف كى بنا، مثلا: ان دونوں كے درميان عداوت و دشمنى يا حسد و بغض ہو، يا چودراہٹ كا جھگڑا ہو، تو وہ نصيحت ظاہر كرتے ہوئے بات كرے ليكن اس كا باطن ميں مقصد اس شخص سےكو ذليل كرنا اور اس شخص كى عزت پر ہاتھ صاف كرنا ہو تو يہ شيطانى عمل ہے.
" عملوں كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كو وہى كچھ ملے گا جو اس نے نيت كى "
بلكہ نصيحت كرنے والے كا مقصد ہو كہ اللہ تعالى اس شخص كى اصلاح كر دے، اور مسلمانوں كے دين اور دنيا كے معاملہ ميں اس شخص كے ضرر اور شر سے اللہ انہيں محفوظ ركھے، اور اس كے ليے وہ جتنا ممكن ہو سكے آسان ترين طريقہ اختيار كرے"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 221 ).
واللہ اعلم .