اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

خنزير كے مواد پر مشتمل غذائى اشياء استعمال كرنے كا حكم

05-10-2008

سوال 114129

ميں ان اشياء كے متعلق سوال كرنا چاہتا ہوں جو فروخت ہو رہى ہيں ليكن ہميں يہ معلوم نہيں اس ميں كيا پايا جاتا ہے، ہو سكتا ہے وہ حرام اشياء پر مشتمل ہو، ميں نے انٹرنيٹ پر پڑھا ہے كہ درج ذيل كوڈ والى اشياء جو حرام پر مشتمل ہيں:
E100 , E110 , E120 , E140 , E141 , E153 , E210 , E213 , E214 , E216 , E234 , E252 , E270 , E280 , E325 , E326 , E327 , E334 , E335 , E336 , E337 , E422 , E430 , E431 , E432 , E433 , E434 , E435 , E436 , E440 , E470 , E471 , E472 , E473 , E474 , E475 , E476 , E477 , E478 , E481 , E482 , E483 , E492 , E493 , E494 , E495 , E542 , E570 , E570 , E572 , E631 , E635 , E904
(risque de le contenir E104-E122-E141-E150-E153-E171-E173-E180-E240-E214-E477-E151 . ( ميں نے اس كے متعلق ويب سائٹ www.islamweb.net ) ، اور www.islamonline.net درج ذيل كلام پڑھى ہے:
ماہر اور تجربہ كار مسلمان افراد كى رپورٹ كے مطابق يہ مواد مكمل طور پر يہ مواد اپنى حالت تبديل كر چكے ہيں اور ان پر اصل نام صادق نہيں آتا؛ كيونكہ اس كيمائى يا طبعى تبديلى سے يہ دوسرا مادہ بن گيا ہے، اپنے اصل خواص كھو جانے كى بنا پر ان مواد كو استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور اہل علم كے ہاں يہ معلوم ہے كہ استحالہ يعنى حالت تبديل ہو جانے سے حرام مواد مباح ہو جاتا ہے، اس كى مثال ميں امام ابن تيميہ رحمہ اللہ لكھتے ہيں:
اگر خنزير يا كتا نمك والے برتن ميں گر جائے اور وہ اسے كھا جائے اور نمك كے فعل كے تحت اس كى حالت بالكل بدل جائے اور وہ اس ميں حل ہو جائے حتى كہ اپنے اصل خواص كھو دے تو اس نمك كا استعمال جائز ہے، علماء سلف كے ہاں يہ قاعدہ معروف تھا، اور انہوں نے ايك دن بھى ايسى حالت سے تبديل ہو جانے والى چيز كے استعمال ميں حرج محسوس نہيں كيا، اس طريقہ سے اس كى حالت تبديل ہو جائے جو بعض حرام مواد كو مباح كر دے ليكن جو حرام ہيں، وہ ان چكناہٹ والے مواد چربى اور خنزير كے گوشت وغيرہ كى طرف اشارہ كر رہے ہيں؛ كيونكہ عام طور پر چكنائى والا مواد تبديل نہيں ہوتا، نہ تو گرم كرنے سے ہى اور نہ ہى اسے ابالنے سے بدلتا ہے.
اس ليے مثلا اگر ڈبہ پر خنزير يا حيوانات كے چكنائى والے مواد كا لكھا ہو تو اسے اوپر بيان كردہ سبب كى بنا پر مطلقا استعمال كرنا جائز نہيں"
1 - كيا خريدارى كى ہر اشياء كى مجھے چھان پھٹك كرنا ہو گى ؟
اور حرام مواد پر مشتمل اشياء كى ہم كس طرح پہچان كر سكتے ہيں ؟
اگر آپ ان كوڈ نمبر والے مواد كے استعمال كا كہيں تو وہ كونسے نمبر ہيں ؟
اور اگر آپ اس مواد كا كہيں جس سے مل كر يہ مواد بنتا ہے تو اس كے علاوہ كچھ اور مواد ايسے بھى ہيں جو سمجھ سے باہر ہيں، اور بعض ايسى اشياء ہيں جن پر كچھ نہيں لكھا ہوتا ؟
2 - كيا يہ صحيح ہے كہ اگر مقدار بالكل قليل اور تھوڑى ہو تو اسے استعمال كرنا جائز ہے ؟
اور اگر ہميں مقدار كا علم نہ ہو تو كيا اسے كھانا جائز ہو گا ؟
3 - اگر كوئى شخص يہ كہے كہ رومى مرغى ميں خنزير كے مواد كى پيوندكارى كى جاتى ہے تو اس كا آپ كيا جواب دينگے ؟
4 - اگر ميں كوئى ايسى چيز كھا لوں ہو سكتا ہے اس ميں ايسى مواد ہو جو خنزير سے نكالا گيا ہو ( يعنى ايسا ہونے كا شك ہو ) تو كيا مجھ پر گناہ ہو گا ؟
اگر ابتدا ميں شك ہو كہ اس ميں خنزير كا مواد پايا جاتا ہے، اور وہ چيز كھانے كے بعد ديكھوں كے اس پر خنزير كے مواد پر مشتمل چيز والا كوڈ نمبر موجود ہے تو كيا ميں گنہگار ہوں ؟
سوال طويل ہو جانے ميں معذرت خواہ ہوں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان شخص دوسروں ممتاز ہى اس طرح ہوتا ہے كہ وہ اپنى زندگى كے متعلق شرعى احكام كا خيال ركھتا اور ان كى پابندى كرتا ہے، اور ان احكام ميں اس كى كمائى، اور اس كے كھانے پينے كے احكام شامل ہيں، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمان شخص كے ليے دنيا و آخرت ميں حلال كھانے كى اہميت بيان كى ہے، چنانچہ آپ نے واضح كيا كہ حرام كھانا تناول كرنا دعا كى عدم قبوليت كا باعث بنتا ہے، اور رہا آخرت كا مسئلہ تو اس سلسلہ ميں بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے كہ حرام پر پلنے والے جسم كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے.

اسى كو بيان كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر وہ جسم جو حرام پر پلتا ہے اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے "

اسے طبرانى نےروايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے مسلمان كو ايسى چيز كھانے سے بچنا چاہيے جو اس كے ليے حلال نہيں، اور اسے حلال كھانے كى حرص اور كوشش كرنى چاہے، چاہے اسے اس كے ليے كتنى بھى قيمت ادا كرنى پڑے، اور اس كے حصول كے ليے اسے كئى گناہ كوشش اور جدوجھد كرنى پڑے.

دوم:

خنزير حرام اور نجس و پليد ہے، اس كا گوشت كھانا حلال نہيں، اور نہ ہى اس كى چربى كھانى حلال ہے، چاہے وہ قليل مقدار ميں ہى ہو، اور اس كا كوئى جزء نہيں كھايا جا سكتا، اس ليے اگر آپ روٹى يا كھانے يا دوائى ميں خنزير كے گوشت يا چربى كے اجزاء پائيں تو اس كا كھانا حرام ہو گا.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" اگر مسلمان شخص كو يقين ہو، يا اس كا ظن غالب ہو كہ كھانے يا دوائى يا ٹوتھ پيسٹ وغيرہ كسى بھى چيز ميں خنزير كا گوشت يا اس كى چربى يا خنزير كى ہڈى كا پاؤڈر موجود ہے تو اس كے ليے وہ چيز كھانى اور پينى اور اسے جسم پر ملنا حرام ہے.

اور جس ميں شك ہو اسے بھى استعمال نہ كرے بلكہ اسے ترك كر دے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم اس چيز كو چھوڑ دو جس ميں شك ہو اور اسے استعمال كرو جس ميں شك نہيں " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 281 ).

سوم:

اگر كسى چيز ميں حرام كى موجودگى كا شك پيدا ہو جائے تو كيا مسلمان شخص كے ليے اس كے متعلق سوال كرنا اور اسے تلاش كرنا واجب ہے ؟

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا اس سلسلہ ميں كلام بيان ہو چكى ہے كہ:

" جس ميں شك پيدا ہو جائے تو اسے استعمال نہ كريں بلكہ ترك كر ديں "

اور ايك دوسرے فتوى ميں درج ذيل كلام ہے:

" حرام كھانے سے اجتناب كرنے كے ليے اس كى تفصيل معلوم كى جائيگى "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 285 ).

اگر كسى ملك ميں كھانے پينے كى اشياء تيار كرنے والى فيكٹريوں ميں خنزير كے اجزاء استعمال كرنے كى ممانعت نہ ہو تو واجب اور ضرورى يہى ہے كہ اس كے متعلق تفصيل معلوم كى جائے كہ اس ميں كيا استعمال كيا گيا ہے، كيونكہ اس طرح كے ممالك ميں خنزير كى بقايا جات مثلا چربى وغيرہ بہت سارے مشروبات اور كھانے كى اشياء اور ادويات اور ٹوتھ پيسٹ وغيرہ ميں استعمال كى جاتى ہيں.

اس ليے كہ اگر وہ اشياء تيار كرنے والا ملك اسلامى ہو جہاں خنزير كے اجزاء كا استعمال ممنوع ہو تو مسلمان شخص كے ليے فى ذاتہ مباح اشياء كے متعلق استفسار اور سوال كرنا ضرورى نہيں؛ كيونكہ اس طرح كى حرام اشياء كا اسلامى ملك ميں استعمال بعيد معلوم ہوتا ہے.

چيز كے بارہ ميں سوال كرنے اور تفصيل معلوم كرنے يا نہ كرنے كے متعلق علماء كرام كا جواب ان اشياء كو تيار كرنے والے ممالك كے اعتبار سے ہو گا.

اور يہ بھى تفصيل معلوم كرنے اور بحث ميں شامل ہوتا ہے كہ اہل علم اور اشياء كے مركبات اور كيمائى تركيبات كے ماہر حضرات سے سوال كيا جائے.

اور يہ بھى تفصيل اور بحث ميں شامل ہوتا ہے كہ كھانے پينے كى اشياء كے ڈبوں وغيرہ پر موجود نسخہ اور تركيبى اشياء كى لسٹ كا مطالعہ كيا جائے، اور يقين اور تاكيد كرنے كے ليے يہى كافى ہے، چاہے وہ كسى كافر ملك كى تيار كردہ ہى ہو؛ كيونكہ اس طرح كى اشياء لكھنے ميں قوانين اور جرمانے كا خوف ركھتے اور خيال كرتے ہوئے لكھى جاتى ہيں.

اور پھر كافر تو مال و زر كے بندے اور غلام ہيں وہ ـ غالبا ـ جھوٹ بول كر اپنے آپ كو مصيبت اور خسارہ ميں نہيں ڈالتے.

اور ڈبوں پر جو كوڈ اور نمبر اور نام ايسے ہوں جن كے معانى كا مفہوم نہ سمجھ سكتا ہو تو اس كے متعلق تجربہ كار اور اس كا علم ركھنے والوں سے دريافت كا جا سكتا ہے اور يہ علم بہت سارے طريقوں سے اس وقت متوفر ہے، تو جو شخص ان كو ثقہ سمجھتا ہے اور اسے اطمنان ہو تو وہ ڈبے پر موجود تركيب كا مطالعہ كرنے پر ہى اكتفا كرے، وگرنہ اسے اس سے بھى زيادہ يقين اور تاكيد كرنى چاہيے، يا پھر زيادہ بہتر اور اچھا يہى ہے كہ اس سے مكمل طور پر اجتناب كيا جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا الكل يا خنزير كى اشياء كى عدم موجودگى كا يقين كرنے كے ليے كھانے والى اشياء كے ڈبوں پر لكھے گئے تركيبى اجزاء پڑھنا واجب ہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

جى ہاں ايسا كرنا واجب ہے " انتہى.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 285 ).

چہارم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے وہ اس حالت ميں ہے جب كھانے پينے كى اشياء يا ادويات ميں خنزير كى چربى يا گوشت قليل يا كثير مقدار ميں ہو.

تو كيا اگر خنزير كا گوشت اور چربى اس طرح تيار كر كے اس كى حالت بدلى جائے جو اس كى حالت كو بدل دے تو اس كى حرمت ختم ہو جاتى ہے، يا كہ وہ پھر بھى حرام ہى رہتا ہے اس سے اجتناب كرنا واجب ہے ؟

اس كے متعلق اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے، مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى رائے يہ ہے كہ اس سے حرمت ختم نہيں ہو گى، اور نہ ہى حكم ميں كوئى تبديلى آئيگى.

ليكن دوسرے علماء ( مثلا اسلامى ميڈيكل علوم كميٹى ) نے اس كى مخالفت كرتے ہوئے يہ رائے اختيار كي ہے، نجس اور حرام اشياء جب كسى دوسرى چيز ميں تبديل ہو جائيں اور اس كى حالت بدل جائے جو اس كى نجاست اور اس كے نام كو ختم كر دے تو وہ حلال ہو گى، اور يہ رائے اس كى موافقت كرتى ہے جسے ابن قيم رحمہ اللہ نے راجح قرار ديا ہے، ( اور جسے ہم بھى راجح خيال كرتے ہيں )، اور ہم نے يہ دونوں قول سوال نمبر ( 97541 ) كے جواب ميں نقل كيے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.

يہاں ہم يہ اضافہ كرنا چاہتے ہيں: سعودى عرب كبار علماء كميٹى كے علماء كى بھى ترجيح يہى ہے، ان كى كتاب " البحوث العلميۃ " ميں درج ہے:

اس كى نظير يہ ہے: جو درختوں اور كھيتوں كو نجس پانى وغيرہ ديا جاتا ہے، حالت تبديل ہو جانے كى بنا پر اس كے پھل حلال ہيں.

اور اس كى نظير يہ بھى ہے: كہ شراب سے جو سركہ بنايا گيا ہے وہ طاہر ہے، اور اسے بطور سالن استعمال كرنا حلال ہے، اور اس كى خريد و فروخت اور خريدارى اور دوسرے فوائد حاصل كرنا حلال ہيں، حالانكہ وہ حرام شراب تھى، اس كا پينا اور فروخت كرنا اور خريدارى كرنا حرام تھا، اور يہ سب حالت ميں تبديلى كى بنا پر ہو " انتہى.

ديكھيں: البحوث العلميۃ ( 3 / 467 ).

پنجم:

جس نے بھى كوئى حرام كھانا كھايا اور اسے اس كے متعلق علم نہ تھا: تو اس كے ليے واجب يہ ہے كہ اس ميں سے جو باقى بچا ہے اس سے اجنتاب كرے، اور جو گزر چكا ہے اس ميں اس پر كوئى لازم نہيں، بلكہ اسے مستقبل ميں آئندہ تفصيل معلوم كرنى چاہيے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے لاعلمى ميں خنزير كا گوشت كھا ليا كھانے كے بعد اس كے پاس ايك شخص آيا اور اسے كہنے لگا: يہ تو خنزير كا گوشت تھا، اور جيسا كہ ہم جانتے ہيں خنزير كا گوشت مسلمانوں پر حرام ہے، تو اس شخص كو كيا كرنا چاہيے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اس سلسلہ ميں اس پر كچھ لازم نہيں آتا، اور اس پر كوئى حرج و گناہ نہيں؛ كيونكہ اسے علم ہى نہ تھا كہ وہ خنزير كا گوشت ہے، بلكہ آئندہ مستقبل ميں اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اس كے متعلق معلوم كرے اور تعفصيل جاننے كى كوشش كرے " انتہى.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 282 - 283 ).

واللہ اعلم .

خوراک
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔