"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: مجھے اقامت سن کر کس وقت کھڑا ہونا چاہیے؟ دوران اقامت "اللہ اکبر" سن کر کھڑے ہونا ہے یا "لا الہ الا اللہ" سننے پر کھڑے ہونا ہے؟ اور اگر ہم اکیلے سنتیں، نوافل، یا وتر وغیرہ پڑھیں تو کیا ان کیلئے بھی اقامت کہی جائے گی؟
الحمد للہ.
اول:
نمازی نماز کیلئے کس وقت کھڑا ہو، اس بارے میں اہل علم رحمہم اللہ کے متعدد اقوال ہیں جنہیں نووی رحمہ اللہ نے "المجموع " (3/233) میں ذکر کیا ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
1- جس وقت مؤذن اقامت کہنا شروع کرے، یہ عطاء اور زہری کا موقف ہے۔
2- جس وقت مؤذن "حي على الصلاة" کہے، یہ ابو حنیفہ کا موقف ہے۔
3- جس وقت مؤذن اقامت کہہ کر فارغ ہو جائے، یہ شافعی کا موقف ہے۔
4- اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے، چنانچہ نمازی اقامت کی ابتدا، درمیان، یا آخر میں کبھی بھی کھڑا ہو سکتا ہے، یہ مالکی فقہاء کا موقف ہے۔
5- مؤذن جس وقت اقامت کہتے ہوئے "قد قامت الصلاة" پر پہنچے اور امام بھی آ جائے تو اس وقت کھڑا ہونا مسنون ہے، اور اگر امام نہ آئے تو امام کو دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے، یہ امام احمد کا موقف ہے۔
لیکن ان میں سے کسی بھی قول کے بارے میں کوئی واضح دلیل احادیث میں نہیں ہے، چنانچہ مذکورہ بالا تمام اقوال ائمہ کرام کے اپنے اپنے فہم کے مطابق اجتہادات ہیں۔
لہذا نمازی کسی بھی وقت کھڑے ہو سکتا ہے، چاہے اقامت کی ابتدا میں یا درمیان میں۔۔۔، لیکن احادیث میں یہ ملتا ہے کہ مؤذن جس وقت اقامت کہہ دے اور امام مسجد میں داخل نہ ہوا ہو تو نمازی جماعت کیلئے اس وقت تک کھڑے نہ ہوں جب تک اس دیکھ نہ لیں، جیسے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو) بخاری: (637) مسلم: (604) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: (یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو کہ میں [گھر سے ]باہر آ گیا ہوں)
مالکی فقہی ابن رشد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"۔۔۔ اگر ابو قتادہ کی حدیث صحیح ہو تو اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور بصورت دیگر اس مسئلے میں واضح نص نہ ہونے کی وجہ سے وسعت ہوگی، چنانچہ جس وقت بھی کھڑا ہو جائے تو صحیح ہوگا" انتہی
"الموسوعة الفقهية" (34/112)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا کہ: کیا احادیث میں اقامت کے وقت نماز کیلئے کھڑے ہونے کی حد بندی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"نماز کیلئے کھڑے ہونے کی حد بندی احادیث میں نہیں ہے؛ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا فرمایا ہے کہ: (جب تک مجھے نہ دیکھ لو کھڑے نہیں ہونا) چنانچہ انسان ابتدا، درمیان، یا اقامت کے آخر میں کھڑا ہو جائے تو یہ سب جائز ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/8)
دوم:
فرض نمازوں کے علاوہ کسی بھی نماز کیلئے اقامت کہنا شرعی عمل نہیں ہے۔
چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پانچ نمازوں کے علاوہ اذان اور اقامت کہنا شرعا ثابت نہیں ہے، چاہے نماز نذر کی ہو یا جنازے کی ، جمعہ، عیدین، کسوف، استسقاء کی طرح با جماعت ادا کی جاتی ہوں یا نماز اشراق کی طرح اکیلے ۔۔۔، جمہور علمائے کرام کا یہی موقف ہے" انتہی مختصراً
"المجموع" (3/83)
مزید کیلئے سوال نمبر: (9360) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.