"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
غیر مسلموں کی اپنے معبودان کا قرب حاصل کرنے کیلئے کی جانے والی قربانیاں اور ذبیحے اللہ عز و جل کیساتھ صریح شرک ، کھلی گمراہی، اور سیدھے راستے سے واضح انحراف ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی عبادت بجا لانے سے منع فرمایا ہے، چاہے اس کیلئے جانور ذبح کیا جائے یا کوئی اور ایسا عمل کیا جائے جو صرف اللہ کیلئے کیا جا سکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ
وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ
وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ
وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ
فِسْقٌ
)
ترجمہ: مردار، خون، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی
اور کے نام سے مشہور کر دی جائے، نیز وہ جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا
بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرگیا ہو نیز وہ جانور جسے کسی درندے نے پھاڑا
ہو، الا یہ کہ (ابھی وہ زندہ ہو اور) تم اسے ذبح کر لو ، نیز وہ جانور بھی جو کسی
آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ، ایسے ہی ہر وہ چیز بھی حرام ہے جس میں فال کے تیروں سے
تم اپنی قسمت معلوم کرو ، یہ سب گناہ کے کام ہیں ۔
[ المائدة :3]
ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ضحاک رحمہ اللہ "
وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ
" کی تفسیر میں کہتے ہیں: "یعنی جو جانور غیر اللہ کے نام کر دیا
گیا ہو" انتہی
" تفسیر طبری" (3 / 320)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی جس جانور پر ذبح کرتے ہوئے غیر اللہ کا نام لیا جائے تو وہ حرام ہے؛ کیونکہ
اللہ تعالی نے اس بات کو لازمی قرار دیا ہے کہ جو بھی جانور ذبح کیا جائے وہ اللہ
کا نام لیکر ہی ذبح کیا جائے، چنانچہ اگر کسی بھی جانور کو ذبح کرتے ہوئے کسی بت،
طاغوت، تھان، یا کسی بھی مخلوق کا نام لیا جائے تو وہ بالاجماع حرام ہے" انتہی
" تفسیر ابن کثیر" (3 / 17)
اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ : جو چیز غیر اللہ کے نام پر ذبح کر دی جائے تو وہ حرام ہے، چنانچہ جو چیز ابھی ذبح نہیں کی گئی لیکن اسے تیار اسی مقصد کے تحت کیا گیا ہے کہ اسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے تو یہ جانور اس میں اس وقت تک شامل نہیں ہوگا جب تک اسے غیر اللہ کیلئے ذبح نہیں کر دیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے " وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ " کے ساتھ دوسرے حرام کردہ اشیاء کا ذکر فرمایا کہ : "گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرگیا ہو نیز وہ جانور جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو" تو ان تمام جانوروں کے بارے میں فرمایا: اگر ان جانوروں کو مرنے سے پہلے پہلے چھری وغیرہ سے ذبح کر دیا جائے تو یہ بھی حلال ہونگے، اسی لیے تو فرمایا: " إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ"[یعنی تم اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کر لو]
چنانچہ یہی تفسیر بیان کرتے ہوئے قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی : "
إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ"
کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور میں زندگی
کی تھوڑی سی بھی رمق ہونے پر،مثلاً: دُم ہل رہی ہو، یا ٹانگیں مار رہا ہو، تواسے
فوری ذبح کر دینے سے اسے حلال قرار دیا ہے"
طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس کسی جانور یا پرندے کو مرنے اور روح نکلنے سے پہلے پہلے ذبح کر دیا جائے تو
اسے کھانا حلال ہے، بشرطیکہ وہ جانور یا پرندہ اللہ کی طرف سے حلال بھی ہو" انتہی
مختصراً
" تفسیر طبری" (9/506)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کفار بکری، گائے، یا کوئی اور حلال جانور اپنے معبودان کیلئے تیار کریں، اور آپ اس جانور کے مرنے سے پہلے پہلے اسے شرعی طریقے سے ذبح کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ حلال ہوگا۔
اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ : کسی بھی چیز کا حکم اسباب اور وجوہات کیساتھ منسلک ہوتا ہے، چنانچہ ان جانوروں کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں غیر اللہ کیلئے ذبح کیا جائے، اور ان کا خون غیر اللہ کیلئے بہایا جائے، چنانچہ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تو انہیں حرام نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ یہاں پر حرام ہونے کی اصل وجہ ہی موجود نہیں ہے۔
خلاصہ:
یہ ہوا کہ اگر یہ گائے کسی کی ملکیت نہ ہو ، اور غیر مسلم اسے پکڑ کر اس جگہ اپنے معبودان باطلہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے لا ئے ہوں ، لیکن کسی مسلمان نے اس گائے کو مرنے سے بچا لیا تو یہ مسلمان کیلئے مستحب عمل ہے، چنانچہ مسلمان اسے شرعی طور پر ذبح کر کے کھا سکتا ہے، یا زندہ / مردہ حالت میں فروخت بھی کر سکتا ہے، یا مساکین و فقراء میں اسے تقسیم بھی کر سکتا ہے۔
مسلمان اپنے اس عمل سے گائے کو ہلاک ہونے سے بچانے کا سبب بنے گا، بلکہ اسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی بجائے اللہ کے نام پر ذبح کر کے کفار کے عزائم کو بھی خاک میں ملائے گا۔
نیز کفار کی جانب سے گائے کو ایسے چھوڑ کر چلے جانا متروکہ مال کی طرح ہوگا جسے اس کا مالک عمداً چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اور جسے بھی ایسا مال ملے تو وہ اسے اپنی ملکیت میں شامل کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم.