"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اگر یتیم کا اپنا مال ، وراثت یا صدقہ وغیرہ کی شکل میں ہوتو فطرانہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے گا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔ جس یتیم کا اپنا مال ہو تو ہمارے ہاں اسی کے مال میں سے فطرانہ واجب ہوگا، اسی کے جمہور علمائے کرام قائل ہیں، جن میں امام مالک، اوزاعی، ابو حنیفہ، ابو یوسف، اور ابن المنذر –رحمہم اللہ جمیعا- شامل ہیں"انتہی
"المجموع" (6/109)
اور اگر یتیم کا اپنا کوئی مال نہ ہو، بلکہ آپ لوگ اس کا خرچہ اٹھا رہے ہیں تو آپ پر انکی طرف سے زکاۃ ادا کرنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ فطرانہ اس شخص پر لازم ہوتا ہے جس پر نفقہ بھی لازم ہو، اور جس شخص کا نفقہ لازم نہ ہو ، بلکہ از خود اس پر خرچہ کر رہا ہو تو اس پر ان کی طرف سے فطرانہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی انسان کسی اجنبی پر خرچہ کی ذمہ داری لے لے، تو ہمارے ہاں بلا اختلاف اس پر اجنبی کا فطرانہ لازم نہیں ہوگا، اسی کے امام مالک، ابو حنیفہ، داود رحمہم اللہ جمیعا قائل ہیں، جبکہ امام احمد کا کہنا ہے کہ: اس پر فطرانہ بھی لازم ہوگا۔۔۔"انتہی
"المجموع" (6/100)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ قول ہمارے اکثر [حنبلی] اصحاب کا ہے؛ انکی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (جنکا خرچہ تم اٹھاتے ہو، انکی طرف سے فطرانہ دو) ہے۔۔۔ ابو الخطاب نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ اس پر فطرانہ لازم نہیں ہے؛ کیونکہ اُس پر انکا خرچہ لازم نہیں ہے، یہی موقف اکثر اہل علم کا ، اور یہی –ان شاء اللہ- صحیح ہوگا"انتہی
"المغنی" (2/362)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کی ذکر کردہ حدیث: (جنکا خرچہ تم اٹھاتے ہو، انکی طرف سے فطرانہ دو) کو اکثر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ: "اسکی سند ضعیف ہے"
بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اسکی سند قوی نہیں ہے، بیہقی نے اسے بسند "جعفر بن محمد عن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم " بھی روایت کیا ہے، اور یہ سند بھی مرسل ہے۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ (جنکا خرچہ تم اٹھاتے ہو) حدیث کے الفاظ ثابت نہیں ہیں" انتہی
المجموع (6/68)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (99585) کا مطالعہ کریں۔
اس حدیث کو اگر درست بھی مان لیں تو اسکا معنی ہوگا: جسکا خرچہ تم پر واجب ہے انکی طرف سے فطرانہ بھی ادا کرو، از خود عطیہ کے طور پر دیا جانے والا خرچہ مراد نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم .