"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
سودی قرضہ لینا یا دینا ہر طرح سے ناجائز ہے، اور جو شخص یہ کام کر رہا ہے اس کیلئے توبہ کرنا ضروری ہے، اور سودی لین دین چھوڑدے، اور اس پر پشیمان بھی ہو اور آئندہ نہ کرنے کا بھی عزم کرے۔
سودی قرض لینا اگرچہ حرام ہے لیکن آپ اس کے مالک ہیں، آپ اسے کہیں بھی جائز کام میں استعمال کر سکتے ہیں، جیسے آپ اس قرض سے کار خرید لیں ، وغیرہ
آپ مزید جاننے کیلئے دیکھیں: "المنفعة في القرض" لعبد الله بن محمد العمرانی، ص 245- 254 ملاحظہ کریں
مذکورہ بالا بیان کے بعد ؛ آپ اپنے پاس موجود رقم سے حج کرسکتے ہو، لیکن سود سے توبہ کرنا لازمی ہے، جیسا کہ آپ نے اسکا ذکر بھی کیاہے، جبکہ اقساط کی ادئیگی آپ کیلئے مُضر نہیں ہے، آپ وہ ادا کردیں۔
ایسے ہی اگر آپ قرض کی ادائیگی کیلئے طاقت رکھتے ہو تو ایسے قرض کے ہوتے ہوئے حج کرنے میں کوئی حرج نہیں، چاہے قرض مؤجل ہو یا قسط وار۔
مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (3974) اور (4241) بھی ملاحظہ کریں۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپکو نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمیں سیدھے راستے پر رکھے۔
واللہ اعلم .