"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اورمستقبل میں ہم شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ میرے اس فیصلہ پر والدین بھی رضامند ہیں اوراسی طرح لڑکی کے والدین بھی رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں ، اورسب کچھ بہتر حالت میں ہے ۔۔
لیکن مجھے ایک مشکل درپیش ہے کہ وہ لڑکی عیسائي ہے ، آپس میں بات چیت کے دوران میں نے اسے اسلام قبول کرنے کا کہا اوراسے اسلامی معلومات بھی مہیا کیں ، سب کچھ سمجھنے کے باوجود ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتی ۔
بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا ہے کہ میں متشدد قسم کی عیسائي لڑکی ہوں عیسایت کے علاوہ اورکسی بھی دین کو قبول نہیں کرسکتی اورنہ ہی مسلمان ہوسکتی ہوں ، نہ تو وہ خنزیر کا گوشت کھاتی ہے اورنہ ہی شراب نوشی کرتی ہے ، وہ احساسات میں حقیقتا پاک صاف عورت ہے اورصاف دل کی مالک ہے اورحقیقت میں وہ میرے دین پر کوئي اعتراض نہیں کرتی بلکہ وہ اس پر موافق ہے اورمجھے قبول بھی کرتی ہے وہ چاہتی ہے کہ میں بھی اسے اس کے دین میں ہی قبول کروں اور ہمارا فیصلہ ہے کہ ہمارے بچے بھی مسلمان ہوں گے ۔
میرے کچھ دوستوں نے مجھے نصیحت کی ہے کہ میں اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کروں یعنی اسے یہ دھمکی دوں کہ اگر اس نے اسلام قبول نہ کیا تو میں اس سے شادی نہیں کرونگا ، میرے دوست تویہی نصیحت کررہے ہيں لیکن میرے ناقص علم کے مطابق ایسا کرنا مطلقا اس کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
آپ سے میری گزارش ہے کہ مجھے بتائيں کہ کیا میرے لیے ضروری ہے کہ میں اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کروں ؟
میرے خیال میں وہ مسلمان اس وقت ہو جب اس میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالی ایک ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اس کے احساسات بھی حقیقی ہونے چاہیے نا کہ عارضی ، میں اسے اسلام پر مجبور نہيں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو وہ مجھے دکھانے اورمجھ سے شادی کرنے کے لیے مسلمان ہو جائے گی ، اوریہ اس کی غلطی ہوگی ۔۔۔۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ اپنے حقیقی احساسات کی بنا پر اسلام قبول کرے اوراس اللہ تعالی کی وحدانیت پر اس کے حقیقی احساسات ہوں ، میری یہ پوری کوشش ہے کہ میں اسے صحیح اسلامی معلومات مہیا کروں اورسیدھا راستہ بھی دکھا دوں ۔۔۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ مجھے یہ بتائيں کہ کیا اسے قبول اسلام پر مجبور کرنا واجب ہے ؟
اورکیا اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو میرے لیے اس سے شادی کرنا جائز ہے ، اورکیا ہم شادی کرکے خاوند اوربیوی کی زندگي بسر کرسکتے ہیں ؟
الحمد للہ.
اول :
اللہ سبحانہ وتعالی نے یھودی اورعیسائی عورت سے مسلمان مرد کو شادی کرنے کی اجازت دی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عفت وعصمت کی مالکہ ہونی چاہیے یعنی زانیہ نہ ہو اور اس کی ولایت مسلمان خاوند کو حاصل ہو گی۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
آج تمہارے لیے سب پاکیزہ اشیاء حلال کردی گئي ہیں اوراہل کتاب کا ذبیحہ بھی تمہارے لیے حلال ہے ، اورتمہارا ذبیحہ ان کےلیے حلال ہے ، اورپاکدامن مسلمان عورتیں اورجن لوگوں کو تم سے قبل کتاب دی گئي ہے ان کی پاکدامن عورتیں بھی حلال ہیں ، جب تم ان کو مہر ادا کردو ، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو ، اورجو ایمان لانے سے کفر کا ارتکاب کرے گا اس کے اعمال ضائع اوراکارت ہیں ، اورآخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا المائدۃ ( 5 ) ۔
اس آیت میں احصان سے مراد یہ ہے کہ زانیہ نہ ہو ۔
ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہاں پر جمہورعلماء کرام کا قول بھی یہی ہے جوکہ صحیح ہے تا کہ اس میں دو چيزیں جمع نہ ہوں جائيں یعنی ایک تو وہ کتابیہ ہو اورپھر عفت وعصمت کی مالک بھی نہ ہو تواس طرح اس کی حالت کلیتا ہی خراب ہوجائیگي ، اورپھر خاوند کو بھی ویسے ہی حاصل ہوگا جس طرح کہ مثال پیش کی جاتی ہے " ایک تو خراب کھجور اوروہ بھی تول میں کم " یعنی دوھرا ظلم ، اورظاہر یہی ہے کہ آیت میں محصنات سے مراد زنا سے عفت وعصمت والی ہونی چاہییں ۔ ا ھـ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 55 ) ۔
اورولایت کی شرط پر مندرجہ ذیل فرمان باری تعالی دلالت کرتا ہے :
اوراللہ تعالی نے کافروں کے لیے مومنوں پر کوئي راہ نہیں بنائي النساء ( 141 ) ۔
ہمارے بھائي اس کے باوجود ہم آپ کو یہ نصیحت نہيں کرتے کہ آپ کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کریں بلکہ ہم تو یہ بھی نصیحت نہيں کريں گے کہ آپ کسی بھی مسلمان لڑکی سے شادی کرلیں کیونکہ ازدواجی زندگی صرف خوبصورتی اورپسند پر ہی مشتمل نہیں بلکہ عقل مند مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنی بصیرت کو استعمال کرے جواس سے بھی زيادہ اچھی چيز ہے اسے دیکھے ۔
کیونکہ وہ گھر سے غیب ہونے کی صورت میں اپنے گھر کی حفاظت کا محتاج ہے اورپھر اسے اپنی اولاد کی تربیت کی بھی ضرورت ہے ، تو خود وہ اوراسی طرح ہر عقل مندخاوند ایسی اشیاء صرف اور صرف دین والی مسلمان لڑکیوں میں ہی پائے گا اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وصیت یہی ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عورت سے شادی چاروجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے ، اس کے مال ودولت کی وجہ سے ، اس کے حسب و نسب کی وجہ سے ، اس کی خوبصورتی وجمال کی وجہ سے ، اس کے دین کی وجہ سے ، تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4802 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1466 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں :
اس حدیث کا صحیح معنی یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی عادت کے بارہ میں بتایا ہے کہ لوگ عام طور پر انہیں چار خصلتوں کی وجہ سے شادی کرتےہیں ، اوران کے ہاں سب سے آخری چيز دین ہوتی ہے ، اس لیے اے راہنمائي چاہنے والے آپ بھی دین والی کو اختیار کریں اوراسے ہی تلاش کریں کیونکہ حکم بھی اسی کا دیا گيا ہے ۔
اوراس حدیث میں اس پر ابھارا گيا ہے کہ اچھے اورنیک و صالح قسم کے لوگوں سے ہی ہر قسم کےتعلقات رکھنے چاہییں اوران کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہیے ، کیونکہ ان سے تلقات رکھنے والا ان کے اخلاق اوربرکت سے مستفید ہوگا ، اور ان کے اچھے طریقے حاصل کرے گا ، اور اسی طرح ان کی جانب سے فساد والی چيزوں سے محفوظ رہے گا ۔ دیکھیں شرح مسلم لنووی ( 10 / 52 ) ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کتابی عورتوں سے شادی کرنے کی بہت سی خرابیاں ہیں جن میں سے چند ایک ذيل میں پیش کی جاتی ہيں :
1 - خاوند اپنی بیوی سے اس کے دین کے معاملہ میں نرم رویہ اختیار کرے گا اورخاص کر جب وہ اپنے دین پر سختی سے کاربند ہو ، اس وجہ سے وہ صلیب بھی لٹکائے گی اورگرجا میں بھی عبادت کےلیے جائے گی اورپھر اس پر یہ بھی مرتب ہوگا کہ اس کی اولاد اس حالت میں محفوظ نہيں رہے گی اس پر بھی ماں کے دین کا اثر ہوگا ۔
2 - کتابی بیوی حیض کے بعد غسل کرنے کی احتیاط نہيں کرے گی ، اورنہ ہی وہ حالت حیض میں خاوند سے ہم بستری کو منع کرے گی ، جس کی بنا پر شرعی حرج اورجسمانی و جسدی نقصان بھی ہوگا ۔
3 - کتابی بیوی کے لباس اور مردوں سے میل جول اوران سے بات چیت کی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
4 - خاوند اوربیوی کے مابین اختلاف اورطلاق کی صورت میں کافرحکومتیں ان کتابی عورتوں کا ساتھ دیں گی کہ ان کی اولاد ماں کے سپرد کی جائے ، جوکہ ایک مسلمان کی اولاد کے ضیاع اورکفرمیں واقع ہونے کا سبب ہوگا ، اس طرح کہ واقعات بے شمار ہيں جویہاں پر ذکر نہيں کیے جاسکتے ۔
کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :
نصاری سے شادی کرنا بہت ہی زيادہ قبیح کام ہے جویقینا اولاد کو کفر میں لے جانے کا باعث بنتا ہے ۔
اورجواپنے بیٹے کے کفر پر راضي ہو وہ بھی کافر ہے ، اگرچہ وہ قولی طور پر اسلام کا ہی دعوی کرتا رہے ۔
اوربعض اوقات بیوی کے پیچھے چلتے ہوئے خاوند بھی کفر کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوگا ۔
اگر تم صحیح شادی کرنا چاہتے ہو اوراس کی رغبت رکھتے ہو تو کسی دین والی صالحہ عورت سے شادی کرو یہ تمہارے لیے بہتر اور اچھا ہے ۔
اوراپنے آپ سے کافروں کو دور رکھو اوران سے شادی کرنے سے بھی پہلو تہی اختیار کرو ، کیونکہ ان کا شربہت ہی زيادہ اور واضح ہوتا ہے ۔
اوراس شادی سے پیدا شدہ اولاد صالح نہیں ہوگی ، اصل اورفرعی طور پر غلط اورخبیث قسم کی نسل بڑھ جائے گی ۔
دوم :
جب آپ نصرانی عورت سے شادی کرلیں تو پھر آپ اسے اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کر سکتے ۔
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
دین کے بارہ میں کوئي زبردستی نہیں ، ھدایت ضلالت وگمراہی سے واضح اورروشن ہوچکی ہے ، اس لیے جوشخص اللہ تعالی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا ، جو کبھی نہ ٹوٹے گا ، اور اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے البقرۃ ( 256 ) ۔
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہيں :
اللہ تعالی فرماتے ہيں دین کے معاملہ میں کوئي زبردستی نہیں یعنی تم کسی کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہ کرو کیونکہ دین اسلام کے حق ہونے کے دلائل وبراھین واضح اور ظاہر ہيں ، جس میں کوئي ضرورت نہیں کہ اسلام میں داخل ہونے کےلیے کسی پر بھی زبردستی کی جائے ۔
بلکہ اللہ تعالی نے جسے اسلام کی ھدایت نصیب فرمادی اوراس کے سینہ ودل کو اسلام کے لیے کھول دیا اوراس کی بصیرت کو روشن اورمنور کردیا وہ خود ہی دلیل کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا ۔
اورجس کے دل کو اللہ تعالی نے اندھا کردیا اوراس کی آنکھوں ، کانوں پر مہر لگا دی اس کا مجبورا دین اسلام میں داخل ہونا بھی کوئي فائدہ نہيں دے گا ، اس آیت کا سبب نزول یہ ذکر کیا گيا ہے کہ کچھ انصاریوں کے بارہ میں یہ آیت نازل ہوئي تھی ، لیکن اس کا حکم عام ہے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 311 ) ۔
ہم ایک بار پھر آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اس سے شادی نہ کریں اوراسے ترک کردیں ، اوراللہ تعالی سے دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دین کے لیے آپ کے دل کو اس سےبہتر اوراچھی کی طرف مائل کردے ، جب اسے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا جائے گا تو پھراللہ تعالی ان شاء اللہ اس کا نعم البدل بھی عطا فرمائے گا ۔
کیونکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے :
( جو بھی کسی چيز کو اللہ تعالی کے لیے ترک کرتا ہے اللہ تعالی اسے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے ) ۔
واللہ اعلم .