"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اللہ تعالی نے اس امت کو نبی کے صحابہ عنایت کر کے بہت عظیم احسان فرمایا، تمام صحابہ کرام سب سے زیادہ نیکوکار، علمی گہرائی کے مالک، اور پاکیزہ ترین سیرت کے مالک تھے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے جید سند کیساتھ مسند احمد (3589) میں نقل کیا ہے کہ:
"عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کی چھان
بین کی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہترین پایا، تو اللہ تعالی نے
انہیں اپنے لئے چن لیا، اور انہیں پیغام رسالت کیساتھ مبعوث فرمایا، پھر دوبارہ
لوگوں کے دلوں کی چھان بین کی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں
کو سب سے بہتر پایا، چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی کیلئے وزراء منتخب
فرمایا، جو کہ دین محمدی کیلئے قتال کرتے ہیں"
میمونی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:
"ابو الحسن! جب تم کسی شخص کو صحابہ کرام کا تذکرہ نا مناسب انداز سے کرتے ہوئے پاؤ
تو اسکا اسلام مشکوک سمجھو" انتہی
"البداية والنهاية" (8 /148)
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور صحابہ کرام سے بغض رکھنا منافقت ہے، خصوصا علم و دین نشر کرنے والے کبار صحابہ کرام کے بارے میں بغض رکھنا بہت زیادہ سنگین جرم ہے۔
انہی صحابہ کرام میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ تعالی انکے والدین سے بھی راضی ہو۔
آپکا نام و نسب یہ ہے:
عمار بن یاسر بن عامر بن مالک بن کنانہ بن قیس بن وذیم، آپکی کنیت : ابو یقظان تھی
، آپ کی نسبت: "عنسی" ہے، مکہ کے رہنے والے اور بنی مخزوم کے موالی میں سےتھے۔
آپکا شمار ابتدائے اسلام میں مسلمان ہونے والے ان چند مسلمانوں میں ہوتا ہے جو جنگ
بدر میں شامل ہوئے تھے، آپکی والدہ محترمہ کا نام سمیہ تھا، آپ بھی بنی مخزوم کے
موالی میں شامل تھیں، اور آپکی والدہ کا شمار بھی عظیم صحابیات میں ہوتا ہے۔
امام بخاری نے (3660) میں روایت کیا ہے کہ: ہمام کہتے ہیں میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سنا تھا جب آپ پر ایمان لانے والوں میں پانچ غلام، اور دو خواتین سمیت ابو بکر رضی اللہ عنہم تھے"
راہِ الہی میں آپکے والد اور والدہ کو بہت زیادہ سزائیں دی گئیں:
ابن ماجہ: (150) میں ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "سب سے پہلے
اسلام کا اعلان کرنے والوں میں سات افراد شامل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،
ابو بکر، عمار، عمار کی والدہ: سمیہ، صہیب، بلال، اور مقداد، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے آپکے چچا ابو طالب کی وجہ سے محفوظ فرمایا، اور ابو
بکر کو اللہ تعالی نے انکے قبیلے کی وجہ سے محفوظ فرمایا، جبکہ دیگر تمام افراد کو
مشرکین نے پکڑ لیا، انہیں لوہے کی ذرہیں پہنا کر سلگتی دھوپ میں چھوڑ دیا" اس حدیث
کو البانی نے "صحیح ابن ماجہ" میں حسن کہا ہے۔
منصور ، مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ:
"ایک بار ابو جہل سمیہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں بکتا ہوا انکے پاس آیا، اور اپنے
نیزے کے ذریعے انکے نچلے حصے میں اتنی ضربیں لگائیں کہ آپ کو قتل کر کے دم لیا،
اور آپ اسلام کی پہلی شہید خاتون قرار پائیں"
عمر بن حکم کہتے ہیں کہ:
"عمار رضی اللہ عنہ کو اتنی سزائیں دی جاتیں کہ انہیں خود معلوم نہیں ہوتا تھا کہ
وہ کیا کہہ رہے ہیں، یہی حال صہیب رضی اللہ عنہ کا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت
نازل ہوئی: وَالَّذِينَ
هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا...جن
لوگوں نے ظلم ڈھائے جانے کے بعد راہِ الہی میں ہجرت کی۔۔۔۔ [النحل : 41]"
"عمار رضی اللہ عنہ نے بدر سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تمام غزوات
میں شرکت کی، آپ نے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور پھر مدینہ کی جانب ہجرت کی"
"سير أعلام النبلاء" (3/ 247)
آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی نے شیطان سے پناہ
دی ہوئی تھی:
چنانچہ صحیح بخاری : (3287) میں علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں ملک شام گیا،
تو وہاں جا کر میں نے پوچھا: یہاں کون [سی نامور شخصیت] موجود ہے؟ تو انہوں نے
بتلایا: ابو درداء رضی اللہ عنہ ہیں، پھر انہوں نے کہا: کیا تم میں ایسا شخص نہیں
ہے جسے اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دی
ہے؟ انکی مراد عمار بن یاسر تھے"
آپ سراپا ایمان تھے، آپکی رگ رگ، گوشت پوست اور ہڈی ہڈی ایمان سے لبریز تھی :
امام نسائی نے (5007) میں روایت کیا ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: (عمار مشاشہ[ہڈی کا وہ نرم حصہ جسے چبایا جا سکتا ہے] تک ایمان سے بھرا ہوا
ہے)"اسے البانی نے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایمان عمار رضی اللہ عنہ کے رگ و پے، اور ہڈیوں میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے اب
جدا کرنا ناممکن ہے، اس لئے کفارہ مکہ کی طرف سے دی جانے والی شدید جسمانی سزاؤں
کی وجہ سے مجبورا کلمہ کفر انہیں نقصان نہیں دے گا، اور "فتح الباری" میں ہے کہ :
یہ خوبی صرف اسی شخص میں پیدا ہوسکتی ہے جسے اللہ تعالی شیطان مردود سے محفوظ فرما
لے" انتہی
"فيض القدير" (6/ 4)
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے نقش
قدم پر چلنے ، اور انکا طریقہ اپنانے کی رہنمائی فرمائی:
جامع ترمذی: (3799) میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ہم رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ نے فرمایا: (مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہارے
درمیان کتنی دیر رہوں گا؛ چنانچہ تم میرے بعد لوگوں کی اقتدا کرنا -آپ نے ابو بکر
اور عمر کی جانب اشارہ فرمایا - اور عمار کے طریقے کو اپنانا، اور جو تمہیں ابن
مسعود احادیث بیان کریں، انکی تصدیق کرنا)" البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح
قرار دیا ہے۔
صاحب کتاب: "تحفۃ الأحوذی" (10/ 204) کہتے ہیں:
"[حدیث میں مذکور عربی لفظ]"ھدی" سے مراد سیرت اور طریقہ ہے، مطلب یہ ہے کہ: عمار
کے طریقے کے مطابق چلو، اور اسی کا انداز اپناؤ" انتہی
عمار رضی اللہ عنہ فقیہ اور زاہد تھے:
چنانچہ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:"عمار رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلے کے بارے میں
پوچھا گیا، تو انہوں نے وضاحت طلب کی: "کیا یہ مسئلہ در پیش ہوچکا ہے؟" لوگوں نے
کہا: "نہیں" تو آپ نے جواب دیا: "اسےچھوڑدو ! جب پیش آئے گا تو دیکھ لیں گے، اور
تمہیں اسکا حکم بھی بتلا دیں گے"
عبد اللہ بن ابو ہذیل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو ایک درہم کے بدلے راشن خریدتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں
نے راشن اپنی کمر پر اٹھا لیا، حالانکہ وہ اس وقت کوفہ کے امیر تھے"
ابو نوفل بن ابو عقرب کہتے ہیں:
"عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بہت کم بات کرتے اور زیادہ خاموش رہتے تھے"
"سير أعلام النبلاء" (3/ 256)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا:
چنانچہ بخاری رحمہ اللہ نے (2812) میں ابو سعید سے نقل کیا ہے کہ: "ہم مسجد کیلئے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے، اور عمار دو ، دو اینٹیں اٹھا کر لاتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے قریب سے گزرے، تو آپ نے عمار کے سر مٹی صاف کی، اور فرمایا: "جیتے رہو! عمار تمہیں ایک باغی گروہ قتل کریگا، عمار انہیں اللہ کی طرف بلائے گا، اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلاتے ہونگے"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور انکے والدین کو جنت کی خوشخبری بھی سنائی:
چنانچہ حاکم : (5666) کی روایت کے مطابق جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمار اور انکے اہل خانہ کے پاس سے گزرے ، انہیں سزائیں دی
جا رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آل عمار اور آل یاسر خوش ہو جاؤ،
تمہارے ساتھ جنت کا وعدہ ہے)" حاکم رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد کہا: "یہ حدیث
صحیح مسلم کی شرائط ہے، اور بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا" انکی اس بات پر
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جنگ صفین
میں سن 37 ہجری میں داغِ مفارقت دے گئے، ان کی اس وقت 93 سال عمر تھی، اس بات پر
بھی اس کا اتفاق ہے کہ آپ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ)
النحل/ 106" انتہی
مزید کیلئے دیکھیں:
"سير أعلام النبلاء" (3/ 245-259) ، " الإصابة" (4/473-474) ، "تهذيب الكمال"
(21/215-221)
واللہ اعلم.