"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سعودی عرب کے ایک بینک میں شریعہ بورڈ موجود ہے جو کہ قرض کی واپسی میں مخصوص تناسب کے اضافے کو جائز قرار دیتا ہے تو کیا اس بینک سے قرض لینا جائز ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے ملک مصر میں ایڈوانس ادائیگی پر پلاٹ بک کر لیا جاتا ہے اور ایک سال کی قسطوں کے بعد میں اس پر تعمیر یا اس پلاٹ کو فروخت کرنے کے لیے وصول کر سکتا ہوں، تو کیا یہ جائز ہے؟
الحمد للہ.
اول:
قرضے کے معاہدے میں قرض خواہ مقروض پر یہ شرط نہیں لگا سکتا کہ قرض کی مد میں وصول شدہ رقم سے زیادہ رقم واپس کرے؛ کیونکہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی بھی قرض جس میں قرض خواہ کے لیے نفع ہو وہ سود ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/240)میں کہتے ہیں:
"کوئی بھی قرض جس میں قرض خواہ اس بات کی شرط لگائے کہ مقروض زیادہ رقم ادا کرے گا، تو یہ بلا اختلاف حرام ہے۔ چنانچہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ مقروض شخص پر یہ شرط رکھے کہ اضافی رقم ادا کرے گا یا قرض کے ساتھ تحفہ دے گا ، پھر اسی شرط پر قرض دے تو اضافی رقم یا تحفہ سود ہے۔
یہی موقف سیدنا ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ وہ کسی بھی ایسے قرض سے روکتے تھے جو قرض خواہ کے لیے منافع لائے۔" ختم شد
دوم:
مقروض شخص پر قرضہ فراہمی کے لیے آنے والے حقیقی اخراجات ڈالنا جائز ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ قرضہ فراہمی کی خدمات کے لیے جو اخراجات آ رہے ہیں صرف وہی ڈالے جائیں، اگر حقیقی اخراجات سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا تو یہ اضافی بوجھ سود بن جائے گا۔
جیسے کہ اسلامی فقہ اکادمی کی قرار دادا نمبر: 13 (1/3) میں ہے کہ:
"اول: قرضہ فراہمی کی سروس پر معاوضہ لینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ معاوضہ حقیقی اخراجات کے دائرے میں ہو۔ دوم: حقیقی اخراجات سے زیادہ تھوڑی سی بھی اضافی رقم حرام ہو گی؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر حرام سود شمار ہو گا۔" ختم شد
قرضہ فراہمی کا معاوضہ حقیقی اخراجات سے زیادہ ہے یا نہیں، یہ اس طرح معلوم ہو گا کہ سروس چارجز قرضے کی رقم کے زیادہ ہونے سے نہ بڑھیں، نہ ہی قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ان میں اضافہ ہو۔
الشیخ یوسف الشبیلی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اضافی رقم بینک کی جانب سے مشروط ہے اور اس کا تعلق ادائیگی کی مدت یا قرض کی مقدار سے ہے تو یہ حرام ہے۔ چاہے انہیں آپ بینک قسطوں میں ادا کریں مثلاً: ہر سال (نصف فیصد وغیرہ ) ادا کی جائے، یا قرض وصول کرتے وقت یا قرض واپس کرتے وقت یک بارگی ادا کیا جائے، چاہے انہیں منافع ، فائدہ، سروس چارجز یا فیس کوئی بھی نام رکھا جائے حرام ہو گا، لین دین میں محض نام نہیں دیکھے جاتے بلکہ ان کی حقیقت مد نظر رکھی جاتی ہے۔
تاہم اگر اضافی ادائیگی مشروط تو ہو لیکن قرض کی مقدار سے بالکل الگ ہو، اس سے قرض کی مجموعی مقدار میں کوئی فرق نہ پڑتا ہو، نہ ہی ادائیگی کی مدت سے کوئی فرق پڑے ، مثلاً: بینک کی جانب سے قرض جاری کرنے کی ایک ہی مخصوص فیس ہو ، مثلاً قرض جتنا بھی ہو اس کی فیس 150 ہی ہے ؛ تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جائز ہے چاہے یہ رقم قرض کی ادائیگی سے الگ ہو، یا اسے قرض کی مجموعی رقم میں شامل کر دیا جائے؛ کیونکہ یہ رقم اصل میں قرض پر اضافہ نہیں ہے، بلکہ قرض ادا کرنے کے لیے بینک کو جو محنت کرنی پڑی ہے، رابطے ، دفتر، اور ملازمین کے اخراجات وغیرہ کے مد میں ہے۔ اور ان اخراجات کو وصول کرنا بینک کے لیے شرعی طور پر جائز ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (167874 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم