"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے اور میرے بھائی نے اپنی نانی سے کچھ رقم قرض لی، تو میری والدہ نے ان سے قرض کے بارے میں بات کی، تو انہوں نے میری والدہ سے کہا: "جو تمہارے پاس ہے اور جو تمہارے بچوں کے پاس ہے ان کے بارے میں بات مت کرو" پھر ان کی بیماری کے دوران جب وہ اسپتال میں بیمار تھیں میرے بھائی نے آدھی رقم انہیں ٹرانسفر کر دی، اور انہیں بتلایا کہ میں نے آپ کے کچھ پیسے ٹرانسفر کر دیے ہیں، اور کچھ باقی ہیں، تو اس پر انہوں نے کہا: "تمہیں کس نے کہا تھا کہ رقم ٹرانسفر کرو؟!" پھر کچھ عرصے بعد میری نانی اماں فوت ہو گئیں، اور فوت ہونے سے پہلے جس وقت ان پر غنودگی سی طاری ہوتی تھی میری والدہ نے بقیہ رقم کے بارے میں بات کی کہ : زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، میرے بچے کیسے رقم واپس کریں گے؟ کیا تھوڑے تھوڑے کر کے آپ کی طرف سے صدقہ کر دیں؟ اس پر میری نانی کچھ خاموش رہیں اور پھر کہنے لگیں: "وہ صدقہ کر دیں"، تو اب سوال یہ ہے کہ کیا میری نانی کا یہ کہہ دینا قرض معاف کرنے کے لیے کافی ہو گا یا نہیں؟ اور کیا انہوں نے نیم غنودگی کی حالت کے دوران جو بات کی تھی اس کو معتبر سمجھا جائے گا؟ ہمیں اس کی وضاحت کر دیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
الحمد للہ.
میں نے یہ سوال اپنے شیخ مکرم عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے کہا:
اس طرح کی باتیں جیسے سوال میں ذکر ہوئی ہیں کہ: "جو تمہارے پاس ہے اور جو تمہارے بچوں کے پاس ہے ان کے بارے میں بات مت کرو" اور ایسے ہی : "تمہیں کس نے کہا تھا کہ رقم ٹرانسفر کرو؟!" یہ باتیں لوگ مروّتا کہہ دیتے ہیں ان سے یہ بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے حق سے دستبرداری کا اظہار کر دیا تھا۔
اسی طرح انہوں نے صدقہ کرنے کا جس وقت کہا ہے ایسی حالت میں مریض کے تصرفات جائز نہیں ہوتے، یہاں ورثا کا حق اصل ہے جو کہ یقینی امور سے ہی ساقط ہو گا، لیکن یہاں بیماری، اور غنودگی کی وجہ سے یقینی بات کرنا ممکن نہیں۔
اس بنا پر:
آپ تمام ورثا کو ساری حقیقت بیان کریں اور بقیہ رقم کے صدقہ کرنے کے حوالے سے وضاحت بھی کریں، اگر تمام ورثا اسے تسلیم کر لیں تو پھر آپ ان کی طرف سے صدقہ کر دیں، وگرنہ سارا مال مکمل ترکہ میں جمع ہو کر سب ورثا میں تقسیم ہو جائے گا۔
واللہ اعلم