"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ايك كمپنى جس ميں حلال اور حرام دونوں كام ہوتے ہيں اور مسروقہ اشياء فروخت كرتى اور دھوكہ ديتى ہے، كيا اس ميں كام كر كے تنخواہ لينى حلال ہے؟
اگر وہ اس كمپنى سے كام ترك كرتا ہے تو جو بھى كام كرے اس ميں ہى شرعى ممنوعات پائى جائينگى، لہذا اسے كيا كرنا چاہيے؟
كيا وہ اپنا كام كرتا رہے يا پھر كام چھوڑ كر بچوں كو بھوكا ركھے، بچوں كى ديكھ بھال كرنے والا كوئى نہيں ہے ؟
الحمد للہ.
اگر تو آپ كے كام سے ان كے دھوكہ و فراڈ اور چورى ميں كسى بھى طرح اور كسى بھى شكل ميں معاونت ہوتى ہو تو يہ كام جائز نہيں ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كروالمائدۃ ( 2 ).
ليكن اگر آپ كا كام حرام كاموں سے بعيد ہے، اور كمپنى كى اور بھى حصے ہيں جو حرام لين دين نہيں كرتے، تو كمپنى كے مباح كام والے حصہ ميں آپ كام كر سكتے ہيں، ليكن شرط وہى ہے كہ: حرام كام ميں كوئى معاونت نہ ہوتى ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سودى اداروں ميں ملازمت كرنى جائز نہيں، اگرچہ انسان چوكيدار، يا ڈرائيور ہى كيوں نہ ہو، اس ليے كہ اس كا سودى اداروں ميں ملازمت كرنے سے ان اداروں پر رضامندى لازم آتى ہے؛ كيونكہ جو كوئى كسى چيز كا انكار كرتا ہے اس كے ليے اس چيز كى مصلحت ميں كام كرنا ممكن نہيں، اور جب اس كى مصلحت ميں كام كرے تو وہ اس سے راضى ہے، اور حرام چيز كى رضامندى سے اس كے گناہ كا حصہ بھى اسے ملے گا.
ليكن جو شخص خود لكھتا، اور احاطہ قيد ميں لاتا، اور وصول كرتا، اور جارى وغيرہ كرتا ہے، وہ بلا شك و شبہ ڈائريكٹ حرام كے ليے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے والے، اور سود كے دونوں گواہوں، اور سود لكھنے والے پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں"
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 401 ).
آپ پر واجب ہے كہ حرام كام كرنے والى اقسام سے مالكوں كو منع كريں، اور انہيں يہ معاملات ترك كرنے كى نصيحت كريں، اور آپ پر يہ بھى واجب ہے كہ: اگر آپ استطاعت ركھتے ہوں تو خريداروں كو بھى نصيحت كريں، اور سامان ميں پائے جانے والے عيب كے متعلق انہيں آگاہ كريں.
اور رہا مسئلہ كہ كوئى دوسرا كام ملتا ہى نہيں، تو يہ بات صحيح نہيں، اور يہ ايك شيطانى وسوسہ ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا.
اس ليے مباح اور جائز كام بہت زيادہ ہيں، لھذا آپ اللہ تعالى پر بھروسہ كريں، اور اس پر توكل كرتے ہوئے حرام سے اجتناب كريں.
اور يہ كہ: بچے بھوكے مريں گے، ہم آپ سے پوچھنا چاہيں گے كہ كيا ان كا بھوكا مرنا افضل ہے- اگر ان كى موت فرض كر لى جائے- يا كہ آپ ان كى وجہ سے آگ ميں داخل ہو جائيں؟ !
پھر اللہ تعالى تو وہ ذات ہے جس نے انہيں پيدا فرمايا، اور ان كا رزق بھى اپنے ذمہ ليا، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
اور آسمان ميں تمہارا رزق ہے، اور وہ بھى جس كا تمہارے ساتھ وعدہ كيا جا رہا ہے.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور تم اپنى اولاد كو فقر و تنگ دستى كے ڈر سے قتل نہ كرو، ہم انہيں اور تمہيں بھى رزق ديتے ہيں، بلا شبہ انہيں قتل كرنا بہت بڑى غلطى ہے.
اور پھر اللہ تعالى نے تو ہر انسان كا رزق اس كے ماں كے پيٹ سے باہر آنے سے قبل كا ہى لكھ ديا ہے، لھذا آپ عرش عظيم كے مالك سے فقر اور تنگ دستى سے نہ ڈريں، ليكن اگر ڈرنہ ہى ہے تو پھر اپنے نفس امارہ سے ڈريں جو برائى پر ابھارتا اور فتنوں ومعاصى اور گناہوں كى جرات دلاتا ہے، اور آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ياد ركھيں:
" جو گوشت بھى حرام ( كھا كر ) پلا اور زيادہ ہوا ہو اس كے ليے آگ زيادہ اولى اور بہتر ہے"
اسے امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے ترمذى ميں ( 614 ) روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.
حديث ميں لفظ " يربو" كا معنى زيادہ ہونا اور بڑھنا ہے.
اور" سحت" حرام كو كہتے ہيں.
ذيل ميں ہم خليفہ راشد عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ تعالى كى سيرت كے چند ايك واقعات پيش كرتے ہيں:
ايك بار عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى كے پاس مسلمانوں كے بيت المال كے ليے كچھ سيب آئے تو ان كے چھوٹے بيٹے نے ايك سيب لے ليا، تو عمر نے اس كے ہاتھ سے بہت شدت كے ساتھ وہ سيب چھينا كہ بيٹا روتا ہوا ماں كے پاس چلا گيا، تو ماہ نے بازار سے بچے كے ليے سيب خريد كر ديا، جب عمر واپس آئے اور گھر ميں داخل ہوئے تو سيب كى خوشبو محسوس كى تو كہنے لگے:
اے فاطمہ، كيا تو نے اس مال سے كچھ ليا ہے؟ تو اس نے جواب ديا نہيں، اور انہيں بتايا كہ اس نے اپنے بيٹے كے ليے اپنے مال سے سيب خريدا ہے.
تو عمر رحمہ اللہ تعالى كہنے لگے:
اللہ كى قسم، ميں نے اس سے سيب چھينا تو ايسے لگا كہ ميں نے اپنے دل سے چھينا ، ليكن ميں نے يہ ناپسند كيا كہ مسلمانوں كے مال سے ايك سيب كے سبب اللہ تعالى كے سامنے اپنے آپ كو ضائع كردوں.
ديكھيں: مناقب عمر بن عبد العزيز ( 190 ).
عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى ايك دن عشاء كى نماز كے بعد اپنى بيٹيوں كو سلام كرنے گئے، جب ان كى بيٹيوں كو محسوس ہوا تو انہوں نے اپنے مونہوں پر ہاتھ ركھ ليے اور ان سے دور ہو گئيں، تو عمر رحمہ اللہ تعالى نے ان كى ديكھ بھال كرنے والى عورت سے كہا: انہيں كيا ہوا؟
تو اس نے جواب ديا: ان كے پاس رات كا كھانا كھانے كے ليے سوائے دال اور پياز كے كچھ نہ تھا، تو انہوں نے ناپسند كيا كہ آپ ان كے مونہہ كى بو سونگھيں، تو عمر رحمہ اللہ تعالى رونے لگے، اور پھر اپنى بيٹيوں كو كہنے لگے: ميرى بيٹيو: تمہيں اس كا كوئى نفع اور فائدہ نہ ہو گا كہ طرح طرح اور انواع اقسام كے كھانے كھاؤ اور تمہارے باپ كو جہنم كى آگ ميں جانے كا حكم ہو، تو بيٹياں بھى بلند آواز ميں رونے لگيں.
ديكھيں: عمر بن عبد العزيز، تاليف ڈاكٹر برنو ( 142 )
عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى جب مرگ الموت ميں تھے تو انہيں كہا گيا كہ تم اپنى اولاد كو فقر كى حالت كر چھوڑ رہے ہو يہ اچھى بات نہيں، ان كى اولاد ميں دس بيٹوں سے زيادہ تھے، انہيں بلايا، اور انہيں ديكھ كر ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہو گئے، اور پھر كہنے لگے:
ميرے بيٹو: تمہارے والد كو دو چيزوں كے مابين اختيار ديا گيا ہے، يا تو تم مالدار بن جاؤ اور تمہارا باپ آگ ميں جائے، يا پھر تم فقير اور تنگ دست رہو اور تمہارا باپ جنت ميں داخل ہو, لھذا تمہارا فقر اور تنگ دست رہنا اور تمہارے والد كا جنت ميں داخل ہونا اسے اس سے زيادہ محبوب تھا كہ تم مالدار بنو اور تمہارا والد آگ ميں جائے، جاؤ اللہ تعالى تمہارى حفاظت كرے اور تمہيں بچائے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .