"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سماجی رابطے کے ذرائع میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ جو شخص کورونا کی وجہ سے فوت ہو جائے تو اس کو غسل نہیں دیا جا سکتا ، اس کی تدفین اور نماز جنازہ ایسی نہیں ہو سکتی جیسے ہر مسلمان کا حق ہوتا ہے، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ جو کوئی ایسی حالت میں فوت ہو تو اس کا اکیلے بغیر جماعت کے جنازہ ادا کر دیا جائے؟ جزاکم اللہ خیرا
الحمد للہ.
اول:
علمائے کرام کے راجح موقف کے مطابق غائبانہ نماز جنازہ صرف ایسی میت کے لیے جائز ہے جس کا جنازہ جائے فوتیدگی میں ادا نہ کیا گیا ہو۔
جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر غیر موجود میت کا غائبانہ جنازہ ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور طریقہ نہیں ہے۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بہت سے لوگ اپنے علاقے سے دور فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا، البتہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی، تو اس بارے میں لوگوں کے تین موقف بن گئے۔۔۔چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: صحیح بات یہ ہے کہ اگر میت جہاں پر فوت ہوئی ہے وہاں اس کا جنازہ ادا نہیں کیا گیا تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی؛ کیونکہ نجاشی کی وفات کافروں کے درمیان ہوئی تھی اور اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھا گیا تھا۔ چنانچہ اگر جہاں میت فوت ہوئی ہے وہاں پر اس کا جنازہ پڑھا گیا ہے تو پھر اس کا غائبانہ نماز جنازہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی ہے تو فرض کفایہ ادا ہو گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر کبھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ہے تو آپ نے اکثر اوقات ترک بھی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی کام کو کرنا اور نہ کرنا دونوں ہی سنت ہیں، تو غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا مقام الگ ہے اور نہ پڑھنے کا مقام الگ ، واللہ اعلم
امام احمد سے اس بارے میں تین اقوام منقول ہیں، ان میں سے صحیح ترین وہی ہے جس کی تفصیل ابھی گزری ہے۔" ختم شد
"زاد المعاد" (1 / 500 - 501)
اس کی تفصیلات ہم پہلے سوال نمبر: (35853) میں بھی ذکر کر آئے ہیں۔
لہذا اگر آپ کا ظن غالب یہی ہو کہ کوئی مسلمان شخص اسی بیماری کی وجہ سے فوت ہوا ہے اور اس پر جنازہ ادا کیے بغیر اسے دفن کر دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں اس کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا شرعی عمل ہے۔
اور اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ آج کوئی بھی شخص فوت ہو گیا ہے اور آپ کو اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں، آپ پھر بھی ان کا جنازہ پڑھیں تو یہ شرعی عمل نہیں ہو گا؛ کیونکہ عبادات میں اصل ممانعت ہے، اور جواز دلیل سے ہی ملتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزانہ کی بنیاد پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ملتی، اس موقف کی تائید امام احمد کے اس موقف سے بھی ملتی ہے کہ جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے گا، انہوں نے اس کی دلیل نجاشی کے واقعے سے لی ہے۔
البتہ کچھ لوگ ہر رات اس دن فوت ہو جانے والے مسلمانوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں ، تو یہ عمل بلا شبہ بدعت ہے۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (5 / 360)
دوم:
جنازے کا اصولی موقف یہ ہے کہ جہاں میت ہو وہیں پر جنازہ ادا کیا جائے، تاہم غائبانہ نماز جنازہ کو استثنا دیا گیا ہے کہ جنازے کی جگہ بہت دور کسی اور ملک میں ہے تو غائبانہ نماز جنازہ ادا کر لیں، لیکن اگر اسی شہر میں جنازہ ہو تو سنت یہی ہے کہ میت کی جگہ پہنچ کر جنازے میں شرکت کی جائے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ جو میت علاقے میں نہیں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ہو سکتی ہے۔۔۔اور اگر میت اسی علاقے میں ہے تو پھر دو موقف ہیں: پہلا وہی ہے جس کے بارے میں مصنف اور جمہور اہل علم نے قطعی طور پر صحیح ہونے کا حکم لگایا کہ میت کے پاس حاضر ہو کر ہی جنازہ ادا کرے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے علاقے میں موجود میت کا صرف حاضر ہو کر ہی جنازہ ادا کیا ہے، نیز اپنے ہی علاقے میں ہونے کی وجہ سے کوئی مشقت بھی نہیں ہے جیسے کہ غیر علاقے میں فوت ہونے والے کے جنازے میں شرکت میں مشقت تھی۔" ختم شد
"المجموع" (5 / 252 - 253)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں غائب سے مراد ایسی میت ہے جو آپ کے شہر میں نہیں ہے، چاہے وہ قصر کی مسافت سے کم دوری پر ہو۔ لیکن اگر میت شہر میں ہی ہے تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ہے، چنانچہ شرعی عمل یہ ہو گا کہ میت کی قبر پر جائیں اور نماز جنازہ ادا کریں۔
اسی وجہ سے بعض جاہل لوگ غائبانہ نماز جنازہ شہر کی مختلف اطراف میں ادا کر لیتے ہیں؛ حالانکہ میت ان کے اپنے شہر میں موجود ہوتی ہے، تو یہ سنت سے متصادم عمل ہے، سنت یہ ہے کہ آپ میت کی قبر پر جائیں اور نماز جنازہ ادا کریں۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (5 / 345)
تو اس سے معلوم ہوا کہ علاقے سے دور میت پر غائبانہ نماز جنازہ کی اجازت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ ہے کہ جنازے میں شرکت بہت مشکل اور ناممکن ہو، جیسے کہ یہ بات امام نووی کی گفتگو میں پہلے گزر چکی ہے۔
اسی طرح "مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج" (2/ 27) میں ہے کہ:
"اگر شہر میں موجود لوگوں کے لیے بندش ، یا بیماری کی وجہ سے جنازے میں حاضر ہونا ناممکن ہو تو غائبانہ نماز جنازہ کا جواز نکلتا ہے۔"
اسی طرح "تحفة المحتاج" پر علامہ عبادی کے حاشیہ (3/ 150)میں ہے کہ:
"صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مشقت معتبر ہوگی، چنانچہ جہاں جنازے میں شرکت پُر مشقت ہو چاہے شہر کے اندر ہی ہو کہ شہر ہے ہی بہت بڑا یا کوئی اور وجہ ہے تو پھر غائبانہ نماز جنازہ صحیح ہے، اور جہاں جنازے میں شرکت پُر مشقت نہیں ہے تو پھر غائبانہ نماز جنازہ صحیح نہیں ہو گا چاہے جنازہ شہر کی فصیل سے باہر ہی کیوں نہ ہو"
تو مشقت والی علت کورونا کی وجہ سے فوت ہونے والے شخص کے جنازے میں پائی جاتی ہے چاہے وہ شہر کے اندر ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ جنازے میں شرکت ممکن نہیں ہوتی کہ متعلقہ اداروں نے لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے۔
تاہم اس صورت میں غائبانہ نماز جنازہ راجح موقف کے مطابق اسی شخص کی ہو گی جس کا جنازہ کسی نے ادا نہ کیا ہو، جیسے کہ پہلے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔
چنانچہ اگر میت کے کچھ اقارب اور میڈیکل عملے کے افراد نے مل کر نماز جنازہ پڑھ لی تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں ہو سکتی۔
تاہم جو شخص نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکے تو وہ قبر پر جا کر نماز پڑھ سکتا ہے، اور اس کے لیے ایسا وقت چنے کہ جس میں باہر نکلنے اور چلنے پھرنے پر پابندی نہ ہو، یا لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد نماز جنازہ قبر پر ادا کر لے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اس وبائی مرض کا مسلمانوں سے خاتمہ فرما دے۔
سوم:
نماز جنازہ کے لیے ایک فرد ہو تو تب بھی جنازہ صحیح ہو گا، اس کے لیے باقاعدہ جماعت کی شرط صحیح موقف کے مطابق نہیں لگائی جاتی، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (152888) میں ذکر کر آئے ہیں۔
چہارم:
شرعی طریقہ تو یہی ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد ہی جنازہ پڑھا جائے، تاہم اگر نقصان کے خدشے کی وجہ سے غسل دینا ممکن نہ ہو تو غسل نہ دینے کی وجہ سے نماز جنازہ کالعدم نہیں ہو گا، چاہے میت کو بغیر غسل کے ہی دفن کیا گیا ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
ترجمہ: حسب استطاعت اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرو۔ [التغابن: 16]
عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاعدہ: کسی بھی مکلف کو کوئی نیکی کرنے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کے کچھ حصے پر عمل کرنے کی استطاعت رکھتا ہو بقیہ پر عمل کی استطاعت نہ ہو تو وہ مقدور بھر حصے پر عمل کرے گا اور جس پر عمل کرنا ممکن نہ ہو وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔۔۔" ختم شد
"قواعد الأحكام" (2 / 7)
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"کتاب و سنت کی تعلیمات کو اچھی طرح کھنگالنے پر واضح ہو جائے گا کہ کسی بھی حکم کی تعمیل علم اور عمل کی اہلیت سے مشروط ہوتی ہے، چنانچہ اگر کسی کے پاس علم یا عمل میں سے کوئی ایک اہلیت نہ ہو تو وہ اس سے ساقط ہو جائے گی، ویسے بھی اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21 / 634)
واللہ اعلم