"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
آپ كے سوال يہ علم ہوتا ہے كہ آپ مردوں كے ساتھ ملازمت كرتى ہيں اور مردوں كے ساتھ اختلاط سے كئى ايك مفاسد اور غلط اشياء مرتب ہوتى ہيں، اور اس ميں بہت سے موانع ہيں جو اہل بصيرت سے مخفى نہيں، مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت كے دلائل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ثقہ اہل علم نے مرد و عورت كا مخلوط ملازمت كرنے كى حرمت كا فتوى ديا ہے، ان فتاوى جات ميں مستقل فتوى كميٹى كا درج ذيل فتوى بھى شامل ہے:
" سكول اور مدارس وغيرہ ميں مرد و عورت كا اختلاط بہت عظيم برائى اور منكر، اور دين و دنيا ميں بڑا فساد ہے، چنانچہ عورت كے ليے مردوں كے ساتھ اختلاط والى جگہ تعليم حاصل كرنى يا ملازمت كرنى جائز نہيں، اور عورت كے ولى اور سربراہ كے ليے بھى عورت كو ايسا كرنے كى اجازت دينا جائز نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 156 ).
آپ سے گزارش ہے كہ آپ سوال نمبر ( 6666 ) كے جواب كا مطالعہ كريں كيونكہ اس ميں بيان ہوا ہے كہ آيا آپ مردوں كے ساتھ مختلط ملازمت جارى ركھ سكتى ہيں ؟
دوم:
اور جو كوئى بھى اختلاط والى ملازمت ميں مبتلا ہو اگر تو اس كے ليے اپنے گھر نماز ادا كرنا ممكن ہو تو يہ افضل ہے، وہ اس طرح كہ وہ ڈيوٹى سے نماز عصر سے اتنى دير قبل گھر پہنچ جائے كہ ظہر كى نماز ادا ہو سكتى ہو كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت كا گھر كے آخرى كونے ميں نماز ادا كرنا گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے افضل ہے، اور اس كا اپنے گھر كے اندر والے كمرہ ميں نماز ادا كرنا اس كا گھر ميں نماز ادا كرنے سے افضل ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 750 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
كيونكہ اس ميں عورت مردوں كى نظر سے دور اور محفوظ رہتى ہے.
اور اگر وہ اپنے گھر ميں نماز نہيں پا سكتى تو پھر وہ ملازمت والى جگہ پر ايسى جگہ تلاش كرے جو سب سے زيادہ پردے ميں ہو، اور وہ اپنا سارا جسم پردہ ميں لپيٹ كر نماز ادا كرے، اس كے ليے نماز كو وقت سے ليٹ كر كے ادا كرنا جائز نہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).
سعدى رحمہ اللہ تعالى اس كى تفسير كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يعنى: نماز اپنے وقت ميں ادا كرنا فرض ہے، چنانچہ يہ آيت اس كى فرضيت پر دلالت كرتى ہے، اور اس پر بھى كہ نماز كا ايك وقت مقرر ہے، اور وقت ميں ادا كردہ نماز ہى صحيح ہو گى، اور نماز كے يہ اوقات ہر چھوٹے اور بڑے، عالم اور جاہل سب مسلمانوں كے ہاں مقرر ہيں، اور انہوں نے يہ اوقات اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے اخذ كيے ہيں:
" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى صفحہ نمبر ( 204 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" آزاد عورت سارى كى سارى ستر ہے، اس كے ليے اجنبى مردوں كى موجودگى ميں اپنا چہرہ اور ہاتھ ميں ننگے كرنے حرام ہيں، چاہے نماز كى حالت ميں ہو، يا احرام كى حالت ميں، يا دوسرے عام حالات ميں، وہ انہيں ظاہر نہيں كر سكتى، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں اور ہمارے پاس سے قافلے كے افراد گزرتے جب وہ ہمارے برابر پہنچتے تو ہم اپنى اوڑھنياں اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ليتى، اور جب وہ ہم سے آگے گزر جاتے تو ہم اسے ننگا كر ليتے "
اسے ابوداود اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
جب حالت احرام ميں عورت غير محرم مرد كے سامنےاپنا چہرہ ننگا نہيں كر سكتى، حالانكہ احرام كى حالت ميں چہرہ ننگا ركھنا مطلوب ہے، تو پھر باقى حالات ميں تو بالاولى ممنوع ہوگا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا عمومى فرمان ہے:
اور جب تم ان سے كچھ مانگو تو پردے كے پيچھے سے طلب كرو، يہ تمہارے اور ان كے دلوں كى كامل پاكيزگى يہى ہے الاحزاب ( 53 ). انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 255 ).
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے كسى چيز كو ترك كرتا ہے، اللہ تعالى اسےاس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر چيز عطا فرماتا ہے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرے اللہ تعالى اس كے ليے ہر قسم كى تنگى اور پريشانى سے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور ہر قسم كا غم دور كر ديتا ہے، اور پھر روزى بھى اسے وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا.
چنانچہ آپ اس اختلاط والى ملازمت كو ترك كرنے ميں جلدى كريں اور اس كے علاوہ كوئى اور مباح اور جائز ملازمت تلاش كر ليں، اللہ تعالى اس ميں بركت عطا فرمائےگا.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كى رضا كے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .