"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر میں جاپان میں رہائش کے لیے منتقل ہو جاؤں تو کیا اگر میرے بیٹے اور پوتے اسلام سے منحرف ہو گئے تو ان کے گناہ بھی میرے سر ہوں گے؟
الحمد للہ.
کافروں کے ممالک میں رہائش خطرات اور خدشات سے بھر پور ہے؛ کیونکہ وہاں پر فتنے بھی زیادہ ہیں اور اسلام سے دور کرنے والے امور بھی بہت ہیں، پھر بچوں اور پوتوں کی زندگی بھی نہایت خطرے میں ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ انہیں اسکولوں میں غلط کام کرنے پر مجبور کیا جائے، یہ بھی ممکن ہے کہ باپ بیٹے یا بیٹی پر کوئی اختیار نہ رکھ سکے، اس لیے باپ اپنے ہی بچوں کو غلط تعلقات سے نہیں روک سکتا، یا حرام کام سے منع نہیں کر سکتا، اس طرح بچے گناہوں کے دلدادہ ہو جائیں گے، بسا اوقات ممکن ہے کہ انسان سرے سے دین کا منکر ہو جائے، مغربی ممالک کے زمینی حقائق اس چیز کے عینی گواہ ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری والدین کے ذمے ہے کہ انہیں کسی قسم کی بے راہ روی سے بچائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو جہنم سے بچاؤ۔[التحریم: 6] امام مجاہدؒ اور دیگر سلف صالحین اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: اپنے اہل خانہ کو تقوی الہی کی تاکیدی نصیحت کرو اور انہیں با ادب بناؤ۔ اسی طرح قتادہ ؒکہتے ہیں: انہیں اطاعت الہی کا حکم دو اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے روکو۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ توجہ کرو! تم میں سے ہر ایک شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے ہی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2554) اور مسلم : (1829) نے روایت کیا ہے۔
سب ممالک میں برائی ایک جیسی نہیں ہے، کسی میں کم تو کسی میں زیادہ، اسی طرح اولاد کے بگڑنے اور سدھرنے کا احتمال بھی یکساں نہیں ہے، اسی طرح بچوں کی عمریں بھی اس حوالے سے مؤثر ہوتی ہیں، چنانچہ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا ممکن ہوتا ہے جبکہ لڑکوں اور بالغوں کو کنڑول کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تو بچوں کے بگڑنے کی ذمہ داری والدین پر ڈالنے کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر والدین نے اصلاح کے اسباب اپنائے، بچوں کو بگاڑنے والے ذرائع سے دور رکھا، تو پھر والدین سے بعد میں جو کچھ بھی ہو نہیں پوچھا جائے گا۔
اس اصول کی روشنی میں ہمارے مسئلے کو یوں دیکھیں کہ: والدین اپنے بچوں کے ہمراہ مسلم ملک سے کسی ایسی جگہ منتقل ہو جائیں جہاں بچوں کے دینی تشخص متاثر ہو تو یہ جائز نہیں ہے؛ اس وقت کافروں کے ممالک میں رہنے والے ایسے بڑے بڑے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، چنانچہ جہاں والدین کے پاس کوئی اور راستہ بھی ہو تو ایسے میں والدین کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو مسلم ممالک سے کہیں اور منتقل کریں، چاہے اس علاقے میں زندگی خوش حال ہو، دولت کی بھی فراوانی ہو۔۔۔ یا کوئی اور دنیاوی مفادات دستیاب ہوں۔
لیکن اگر صرف والدین کے لیے یا ان کے ملک میں قومی سطح پر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ کافروں کے ملک میں منتقل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے ملک کا انتخاب کریں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو، اور وہاں اسلامی شعائر عیاں ہوں، مسلمان وہاں پر اپنے دین کا اظہار آزادی سے کر سکیں۔
رہائشی علاقے کے انتخاب کے لیے یہ بھی دیکھیں کہ وہاں مسلمانوں کے پرائیویٹ اسکول موجود ہوں کہ جہاں پر بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں، اور ان اسکولوں میں عریانی ، فحاشی اور کفریہ نظریات کی تعلیم سے محفوظ رہیں۔
والدین اپنے بچوں کو عربی زبان، دین، اور حفظ قرآن کی تعلیم لازمی دلوائیں، اور نماز جمعہ کے ساتھ پانچ وقت کی نماز مساجد میں جا کر ادا کریں۔
اگر کوئی شہر ایسا مل جائے تو پھر والدین پر وہاں منتقل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر کوئی بچہ پھر بھی دین سے منحرف ہو جاتا ہے تو والدین کو اس کا کوئی گناہ نہیں ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی لڑکا مسلمان ملک میں رہتے ہوئے منحرف ہو جائے۔
لیکن اگر وہ علاقہ ایسا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے، ممکن ہے کہ وہاں کوئی مسجد ہی نہ ہو، یا مسجد ہو تو سہی لیکن صرف جمعہ کے لیے ہی وہاں جا سکتے ہوں، اسلامی اسکول بھی وہاں موجود نہ ہوں، تو بچوں کو اسی علاقے کے بچوں کے ساتھ اسکول میں پڑھنا پڑے گا اور اس علاقے کے بچوں کی عادات سیکھیں گے، ان کی غلط کاریوں کا مشاہدہ بھی کریں گے ، انہی کے نصاب کو پڑھیں گے تو ایسا ماحول منحرف ہونے کے لیے بالکل موزوں ہے۔ بلکہ ایسے ماحول میں انحراف کے علاوہ کوئی دوسرا نتیجہ نہیں نکلے گا، تو اگر کوئی اپنے بچوں کو ایسے علاقے میں لے جاتا ہے تو یہ والد بچوں کے حوالے سے مجرم ہے، اور بچوں کے کافر یا مرتد ہونے سے پہلے منحرف ہو جانے کا ذمہ دار بھی ہے۔ اللہ تعالی سب کو کفر و ارتداد اور انحراف سے محفوظ فرمائے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس کسی بندے کو اللہ تعالی ذمہ داری عطا فرمائے اور وہ اپنی ذمہ داری کا خیر خواہی کے جذبات کے ساتھ خیال نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (7150) اور مسلم : (142) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی ہر ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا، کیا ذمہ داری نبھائی یا لاپرواہی سے کام لیا؟ حتی کہ مرد سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔) اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور غایۃ المرام (271) میں البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تو اگر کل والد سے یہ پوچھا گیا کہ: تم نے فلاں ملک میں رہائش کیوں اختیار کی تھی، حالانکہ تمہیں غالب گمان بھی تھا کہ بچے وہاں جا کر بگڑ جائیں گے، تو وہ کیسے جواب دے گا؟
کیا یہ جواب دے گا کہ: اللہ میں نے دولت، نظافت، رفاہیت، حریت، اور بہترین تعلیم دیکھی تھی!؟
اگر دینداری ہی باقی نہ رہے تو پھر ان سب چیزوں کی کیا قیمت؟!!
تو ان تمام تر تفصیلات سے واضح ہو گیا کہ : بنیادی طور پر بچوں کے ساتھ کافروں کے ملک کی طرف جانا منع ہے ہر ایک کے لیے یہ عمل درست نہیں ہے، ہاں اگر کوئی مجبور ہو گیا ہے تو اس کے لیے بھی ایسے شہر میں جانے کی اجازت ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو، مسلمانوں کی مساجد ، اسکول اور مسلم کمیونٹی سینٹر ہوں۔
چنانچہ اگر کوئی شخص مجبور ہو کر ایسے ممالک کا سفر کرتا ہے، اور وہاں رہائش اختیار کرنا دیگر امور کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی جائز کا حکم رکھے، پھر اپنی بساط کے مطابق بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے سارے انتظامات بھی کرے ، لیکن پھر بھی کوئی بچہ منحرف ہو جائے تو اس صورت میں آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی غیر مسلم ملک میں رہائش پذیر ہو، اور اس علاقے میں رہائش پذیر ہونے کا بھی کوئی مقبول شرعی عذر نہ ہو، پھر کوئی بچہ منحرف ہو جائے تو والد مکمل ذمہ داری اٹھائے گا؛ کیونکہ اس کا والد ہی اس خرابی کی طرف اسے لے کر آیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (52893) اور (224475) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہماری ، آپ کی اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔
واللہ اعلم