اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

جدہ كے رہائشيوں پر طواف وداع واجب ہے

13-11-2011

سوال 45684

ہم جدہ كے رہائشى ہيں، حج كے بعد ہمارے ساتھ بعض لوگوں نے كہا كہ اہل جدہ پر طواف وادع نہيں اور ہم نے طواف وداع نہ كيا، اب ہميں كيا چاہيے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حج مكمل كرنے كے بعد جو شخص مكہ سے واپس جانا چاہے اس پر طواف وداع كرنا واجب ہے، اس كى دليل بخارى اور مسلم كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ لوگوں كو يہ حكم ديا گيا كہ ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو، الا يہ كہ حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كر دي گئى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1755 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1328 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" اس ميں طواف كے وجوب كى دليل ہے، كيونكہ اس ميں تاكيدى امر ہے اور حائضہ عورت سے تخفيف كى تعبير كى بنا پر، كيونكہ تخفيف تو اس وقت ہوتى ہے جب تاكيدى امر ہو " انتہى

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے بھى شرح مسلم ميں ايسا ہى كہا ہے.

علماء كرام ميں اس كا اختلاف ہے كہ طواف وداع كس پر واجب ہو گا بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ جو سفر كر كے چلا گيا اور اس نے ميقات تجاوز كر ليا تو اس پر طواف واجب نہيں، ليكن جو ميقات كے اندر ہے اس پر طواف وداع ہو گا.

ديكھيں: رد المختار ( 3 / 545 ).

اور دوسرے علماء كا كہنا ہے كہ: جس نے قصر كى مسافت جتنا سفر كر ليا ( تقريبا اسى كلو ميٹر ) اس پر طواف واجب ہو گا، ليكن اس سے كم پر واجب نہيں.

اور امام شافعى اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے كہ جو بھى مكہ سے سفر كر كے وہاں سے نكلے اس پر طواف واجب ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" ہم نے بغوى رحمہ اللہ تعالى سے ذكر كيا ہے كہ: جو شخص بھى مكہ سے قصر كى مسافت جتنا سفر كرنا چاہے اسے طواف وداع كرنا ہوگا، ان كا كہنا ہے كہ: اگر وہ قصر كى مسافت سے كم سفر كرنا چاہے تو اس پر طواف وداع نہيں اور صحيح اورمشہور يہ ہے كہ عموم احاديث كى بنا پر صحيح اور مشہور يہ ہے كہ جو شخص قصر كى مسافت تك سفر كرنا چاہتا ہے چاہے وہ سفر كى مسافت قريب ہو يا بعيد وہ طواف وداع كرے گا " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 8 / 236 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" جس كا گھر حرم كى حدود ميں ہو مثلا مكہ كا رہائشى تو اس پر طواف وداع نہيں ہے، اور جس كى رہائش حرم سے باہر اور اس كے قريب ہو تو خرقى رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ وہ وہاں سے طواف وداع كرے بغير نہ نكلے، ابو ثور رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا قياس ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل فرمان كے عموم كى بنا پر:

نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے كوئى بھى اس وقت تك نہ جائے يہاں تك كہ اس كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو "

اور اس ليے بھى كہ وہ مكہ سے باہر كا رہائشى ہے لہذا دور رہنے والے كى طرح اسے بھى طواف وداع كرنا ہو گا" انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 5 / 337 ).

لہذا يہ قول كہ جدہ والوں پر طواف وداع نہيں بعض اہل علم كا يہ قول صحيح نہيں كيونكہ ان پر طواف وداع واجب ہے، تو اس بنا پر جو طواف وداع ترك كرے گا اس پر دم لازم آتا ہے ( ايك بكرى يا گائے كا ساتواں حصہ ) جو مكہ ميں ذبح كر كے وہاں حرم كے مساكين ميں تقسيم كيا جائے، اور اسى طرح ہر اس شخص پر بھى جو حج اور عمرہ كا واجب ترك كرے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جو جدہ كا رہائشى ہے اس پر واجب ہے كہ وہ مكہ سے طواف وداع كيے بغير نہ نكلے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 23 / 353 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

جدہ كے رہائشى كچھ لوگوں نے طواف وداع نہ كيا اور جدہ واپس آگئے ان كے متعلق كيا حكم ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" حج صحيح ہے، ليكن آپ لوگوں نے طواف وداع ترك كر كے غلطى كى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجاج كو طواف وداع كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

" تم ميں سے كوئى بھى طواف وداع كيے بغير نہ جائے "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ خطاب سب حجاج كو شامل ہے چاہے وہ جدہ كے رہائشى ہوں يا كہيں اور كے، سب ملك والوں پر واجب ہے ـ چاہے وہ جدہ يا طائف وغيرہ كے ہوں ـ كہ وہ طواف وداع كريں، بعض علماء كرام نے ان لوگوں كے ليے اجازت دى ہے جو قصر كى مسافت سے كم سفر كريں كہ انہيں طواف وداع نہ كرنے كى اجازت ہے مثلا بحرہ وغيرہ كے رہائشى.

ان علماء كا كہنا ہے كہ: ان پر طواف وداع نہيں، ليكن احتياط يہى ہے كہ حرم كى حدود سے باہر رہنے والے ہر شخص كو حج كے بعد طواف وداع كرنا چاہيے، اور جدہ كے رہائشى تو دور ہيں، اور اسى طرح طائف والے بھى، لہذا ان پر واجب ہے كہ وہ مكہ سے نكلنے سے قبل طواف وداع كريں، كيونكہ وہ حديث ميں شامل ہوتے ہيں، جس نے بھى ان ميں سے طواف وداع ترك كيا اس پر دم ہے ايك بكرى مكہ ميں ذبح كر كے اس كا گوشت حرم كے فقراء ميں تقسيم كى جائے، يا پھر اونٹ يا گائے كا ساتواں حصہ تقسيم كيا جائے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 17 / 394 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" آپ حج كے بعد طواف وداع كيے بغير جدہ نہ جائيں، اور اگر آپ طواف وداع كيے بغير ہى سفر كر جائيں تو آپ كو حرم ميں ايك بكرا ذبح كرنا ہو گا اور اس ميں سے آپ نہ كھائيں بلكہ يہ فقراء حرم كو كھلائيں، اس ليے كہ حج كے بعد طواف وداع واجب ہے.

اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى اس حديث كا عموم ہے:

" لوگوں كو حكم ديا گيا كہ ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو، ليكن حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كر دى گئى "

متفق عليہ.

طواف وداع كيے بغير جدہ جانے پر آپ كو توبہ كرنى چاہيے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 303 ).

واللہ اعلم .

حج و عمرہ میں ہونے والی غلطیاں
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔