"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
وہ کون سے مصارف ہیں جن میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے؟
الحمد للہ.
جن آٹھ مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین: ان لوگوں کو زکاۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔
فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ : فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے، چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا۔
لیکن یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ان کی اس ضرورت و حاجت کو کیسے تولا جائے؟
اس کے جواب میں علمائے کرام کہتے ہیں:
"انہیں ان کے خاندان کی ایک سالہ ضروریات کیلئے کافی کر دینے والی مقدار میں مال دیا جائے گا، کیونکہ ایک سال بعد دوبارہ ان کے لئے اصحاب ثروت کے مال میں زکاۃ واجب ہو جائے گی، چنانچہ زکاۃ کے مستحق فقراء اور مساکین کی ایک سالہ ضروریات و حاجات کا اندازہ لگایا جائے گا۔
یہ اچھا موقف ہے، کہ ہم فقراء و مساکین اور ان کے اہل خانہ کو مکمل ایک سال کی اشیائے ضرورت وغیرہ دیں، چاہے یہ راشن اور لباس کی صورت میں ہوں یا نقدی کی صورت میں کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں خرید لیں، یا کسی بھی فن میں ماہر زکاۃ کے مستحق فرد کو متعلقہ آلات و اوزار خرید کر دیں، مثلاً: درزی، بڑھئی، لوہار وغیرہ کو مطلوبہ چیزیں خرید کر دے دیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی مقدار میں زکاۃ دیں گے"
تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے، اسی لیے فرمایا: (وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ) اور زکاۃ جمع کرنے والے عاملین[التوبة:60] اللہ تعالی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: " وَالْعَامِلِينَ فِيْهَا " کیونکہ " وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا " میں یہ اشارہ ہے کہ انہیں اس کام کیلئے حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے، یعنی وہ لوگ جو مالدار طبقہ سے زکاۃ اکٹھی کر کے زکاۃ کے مستحق افراد میں اسے تقسیم کریں، زکاۃ کا حساب کتاب رکھیں، چنانچہ ان لوگوں کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کتنا دیا جائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، چنانچہ جس کا حق زیادہ ہو اسے زیادہ اور جس کا حق کم ہو اسے کم دیا جائے، یعنی ہر ایک کی ملازمت کے اعتبار سے اس کی تنخواہ مقرر کی جائے، چاہے کام کرنے والے یہ لوگ امیر ہوں یا غریب، کیونکہ انہیں یہ تنخواہ ملازمت کی وجہ سے دی جا رہی ہے ان کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں دی جا رہی، اس لئے انہیں ان کی ملازمت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، تاہم اگر انہی زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں میں کچھ غریب لوگ بھی ہے کہ ان کی تنخواہ ضروریات سے کم ہے تو انہیں بھی غربت کی وجہ سے ضرورت کے مطابق ایک سال کا راشن وغیرہ دیا جائے گا، کیونکہ یہ لوگ عامل اور غریب دونوں کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے دونوں کے اعتبار سے انہیں زکاۃ دی جائے گی، تاہم انہیں دیتے ہوئے یہ خیال رکھیں گے کہ تنخواہ کے بعد جس قدر ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکاۃ کی ضرورت ہو اتنی ہی مقدار میں انہیں زکاۃ دینگے، اس کی مثال یوں سمجھیں: ہم یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں سالانہ 10000 ریال کی ضرورت ہے، اور انہیں غربت کی مد میں 10000 ریال ہی ملیں گے، لیکن زکاۃ جمع کرنے کے بدلے میں انہیں 2000 ملے ہیں تو باقی 8000 ریال ہم انہیں غربت کی وجہ سے دیں گے۔
چوتھا مصرف:
جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہو:
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے کچھ دیا جائے چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو، یا پھر کوئی کمزور ایمان والا مسلمان ہو جسے دیکر اسلام پر ثابت قدم رکھا جا سکے، یا پھر کوئی غیر مسلم شریر شخص ہو جسے پیسے دے کر مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ بنایا جا سکے، یا مسلمانوں کے بھلے کیلئے کوئی بھی مد ہو اس میں زکاۃ اس مصرف کے تحت خرچ کی جا سکتی ہے۔
یہاں کسی غیر مسلم یا مسلمان کو زکاۃ دیتے ہوئے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ جس شخص کی تالیف قلبی کیلئے کچھ دیا جائے تو وہ کنبے ، خاندان، یا علاقے میں با اثر شخصیت ہونی چاہیے ، تا کہ اسے زکاۃ دینے کا سب مسلمانوں کو فائدہ ہو۔
تاہم کیا انفرادی طور پر بھی کسی شخص کو اس مصرف کے تحت زکاۃ دی جا سکتی ہے؟ جیسے کہ ایک نو مسلم شخص کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کیلئے اور ایمان مضبوط بنانے کیلئے زکاۃ کا مال دیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، جبکہ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ:
ایسے شخص کو انفرادی طور پر بھی دیا جا سکتا ہے، چاہے یہ شخص اپنے علاقے کی بااثر شخصیت نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان: ( وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) عام ہے، ویسے بھی اگر کسی کمزور شخص کو مالی طور پر مضبوط کرنے کیلئے انفرادی حیثیت میں دینا جائز ہے تو کسی کمزور ایمان والے کو ایمانی مضبوطی کیلئے دینا بالاولی جائز ہوگا۔
مذکورہ چاروں مصارف کے ضمن میں آنے والے لوگوں کو زکاۃ کا مال ان کی ملکیت میں دے دیا جائے گا، چنانچہ انہیں ملنے والا زکاۃ کا مال پوری طرح سے ان کی ملکیت میں شامل ہوگا، لہذا اگر دورانِ سال ان کی مالی حالت اتنی اچھی ہو جاتی ہے کہ وہ زکاۃ کے مستحق نہیں رہتے تو بقیہ زکاۃ انہیں واپس نہیں کرنی پڑے گی، بلکہ سارا مال آزادی سے استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے "لام" حرف جر کے ذریعے ان کی ملکیت کو واضح کیا ہے، چنانچہ فرمایا: " إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ" اور حرف جر "لام" ذکر فرمایا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ : اگر کوئی فقیر زکاۃ لینے کے بعد سال کے اندر اندر امیر بن جائے تو اسے زکاۃ واپس نہیں کرنی پڑے گی، مثلاً: ہم نے کسی غریب کو 10000 ریال ایک سال کے خرچے کے طور پر دیے، اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ سال گزرنے سے پہلے تجارت، وراثت یا کسی ذریعے سے امیر ہو گیا، تو اسسے وصول کردہ زکاۃ واپس نہیں کرنی ہوگی، کیونکہ یہ زکاۃ کا مال اس کی ملکیت بن چکا ہے۔
پانچواں مصرف:
گردن آزاد کروانا:
فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَفِي الرِّقَابِ )، یہاں تین چیزیں علمائے کرام نے بیان کی ہیں:
1- مکاتب غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے مؤجل ادائیگی پر معاہدہ کر لیا ہے، تو ایسے غلام کو اتنی رقم دی جائے گی جس سے اس کی قیمت ادا ہو جائے۔
2- غلام کو زکاۃ کی رقم سے خرید کر آزاد کر دیا جائے۔
3- کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکاۃ سے رقم دیکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائے، اسی طرح اغوا برائے تاوان بھی اسی میں شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی کافر یا مسلم کسی مسلمان کو اغوا کر لے تو یہ تاوان زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں علت اور وجہ ایک ہی ہے، اور وہ ہے کہ کسی مسلمان کو قید سے آزادی مل جائے، لیکن اغوا برائے تاوان میں یہ شرط ہے کہ : ہم اغوا کاروں سے مسلمان کو بغیر تاوان دیے آزاد نہ کروا سکتے ہوں۔
چھٹا مصرف:
قرض اٹھانے والے لوگ: اہل علم نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
1- دو متحارب گروپوں میں صلح کروانے پر دونوں کو مال دیکر صلح پر آمادہ کرنا
2- اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھانا
پہلی قسم کی مثال یہ ہے کہ: دو متحارب گروپوں یا قبائل یا خاندانوں میں لڑائی ہو اور کوئی با اثر اور محترم شخصیت کا مالک شخص دونوں میں پیسے دیکر صلح کروا دے ، تو ہم صلح کروانے والے شخص کی نیکی اور احسان مندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو زکاۃ میں سے وہ رقم دیں گے جو اس نے صلح کیلئے اپنی ذمہ لی، کیونکہ اس نے مسلمانوں کے درمیان عداوت، اور بغض کا خاتمہ کیا اور قتل و غارت کا دروازہ بند کر دیا ہے، ایسے شخص کو بھی زکاۃ کا مال دیا جائے گیا چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کیونکہ ہم اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ نہیں دے رہے، بلکہ ہم اسے اس لیے دے ہیں کہ اس نے مفاد عامہ کا بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
اس کی دوسری قسم میں وہ شخص شامل ہے جس نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھایا ، یا کوئی ضرورت کی چیز خرید کر اپنے پاس رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ذمہ قرض لکھوا لیا تو اس کا قرض زکاۃ سے ادا کر دیا جائے گا، بشرطیکہ اس کے پاس قرضہ ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو۔
یہاں ایک مسئلہ ہے کہ: کیا اس مقروض کو پیسے دے دینا بہتر ہے یا براہِ راست قرض خواہ کو جا کر پیسے دے دیں اور مقروض کا قرض ختم کر وا دیں؟
اس بارے میں مختلف آراء ہیں، چنانچہ اگر مقروض اپنا قرض چکانے کیلئے پوری کوشش کر رہا ہو، اور قرضے سے جان چھڑانے کی پوری جد و جہد کرے ، نیز اگر اسے کہیں سے رقم ملے تو وہ سب سے پہلے قرض ہی چکائے گا تو ہم مقروض کو ہی یہ رقم تھما دیں گے، کیونکہ اس طرح اس پر پردہ بھی رہے گا، اور لوگوں کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑے گا کہ اس کا قرض اسی نے خود ادا کیا ہے، کسی نے زکاۃ سے ادا نہیں کیا۔
اور اگر مقروض شخص فضول خرچ ہے، اور رقم دینے وہ پر غیر ضروری اشیاء خرید لے گا، تو ہم ایسے مقروض کو رقم نہیں دینگے، بلکہ براہِ راست قرض خواہ کو رقم دیکر کہیں گے: "فلاں شخص کا کتنا قرض ہے؟" تو پھر اس قرض کی ادائیگی حسب توفیق کر دیں۔
ساتواں مصرف:
فی سبیل اللہ: اور یہاں "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، چنانچہ نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہی حقیقت میں ہوتا تو آیت :
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ) [التوبة:60] میں حصر اور تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا، اس لیے "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، لہذا جہاد فی سبیل اللہ میں لڑنے والے شخص کو زکاۃ میں سے دیا جائے گا، جن کی ظاہری حالت سے یہی محسوس ہو کہ یہ لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جہاد کر رہے ہیں، انہیں اپنی ضروریات اور اسلحہ وغیرہ کی خریداری کیلئے زکاۃ میں سے دیا جائے گا۔
اسی طرح انہیں قتال کیلئے اسلحہ خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہونا چاہیے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا: "ایک آدمی خاندانی تعصب کی وجہ سے لڑتا ہے، دوسرا داد شجاعت وصول کرنے کیلئے لڑتا ہے، اور تیسرا دکھاوے کیلئے لڑتا ہے، ان میں سے کون سا "جہاد فی سبیل اللہ" میں قتال کر رہا ہے؟ " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑے وہی فی سبیل اللہ ہے) لہذا اپنے وطن کے دفاع میں لڑنے والا اور دیگر وجوہات کی بنا پر قتال کرنے والا "جہاد فی سبیل اللہ" میں شامل نہیں ہے، چنانچہ اسے وہ حقوق حاصل نہیں ہونگے جو "جہاد فی سبیل اللہ" والے کو حاصل ہوتے ہیں، نہ دنیاوی اعتبار سے اس کی مالی معاونت کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی اخروی طور پر سرخرو ہو سکتا ہے۔
چنانچہ جو شخص داد شجاعت وصول کرنے کیلئے قتال میں شریک ہے اور ایسے لوگ عموماً ہر قسم کی لڑائی میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں، یہ بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، اسی طرح دکھاوے اور شہرت پانے کیلئے لڑنے والا بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، لہذا ہر وہ شخص جو "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ ) اس لیے صرف اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑنے والا ہی مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا۔
اہل علم کہتے ہیں: "سبیل اللہ" میں یہ بھی شامل ہے کہ جو شخص شرعی علم حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر وقت دے، تو اسے بھی جیب خرچی، کپڑے، کھانا ، پینا، رہائش، اور کتب وغیرہ لے کر دی جا سکتی ہیں؛ کیونکہ علم شرعی بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حصول علم کیلئے اگر نیت درست ہو تو اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے" چونکہ علم پوری شریعت کی بنیاد ہے، لہذا علم کے بغیر شریعت کا تصور بھی نہیں ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور شرعی احکام سیکھیں، اسی سے اپنا عقیدہ و قولی و عملی عبادات حاصل کریں، [اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب شرعی علم سیکھا اور سکھایا جائے گا] یہ بات درست ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اشرف اور معزز ترین عمل ہے، بلکہ اسلام کی کوہان کی چوٹی ہے، اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں، تاہم علم کا بھی اسلام میں بہت بڑا مقام ہے، اس لیے [حصول]علم کو جہاد فی سبیل اللہ میں شامل کرنا بالکل واضح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
آٹھواں مصرف:
ابن سبیل: اس سے مراد مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکاۃ سے امداد دی جائے گی، چاہے یہ شخص اپنے علاقے میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، کیونکہ اسے ابھی امداد کی ضرورت ہے، یہاں ہم اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی سے قرض اٹھا لو اور بعد میں اد اکر دینا، کیونکہ اس طرح ہم اسے مقروض کر دینگے، [جب کہ قرآن مجید اسے زکاۃ کی مد سے امداد لینے کی اجازت دیتا ہے]، تاہم اگر وہ شخص خود سے قرض اٹھانے پر تیار ہو تو یہ اس کی مرضی ہے، لہذا اگر ہمیں کوئی شخص مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ملے اور اس کے پیسے وغیرہ گم ہو گئے ہوں ، اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، لیکن اپنے شہر میں صاحب حیثیت ہو تو اسے صرف مدینہ پہنچنے کیلئے امداد دیں گے، کیونکہ اسے صرف اتنی ہی ضرورت ہے، لہذا زکاۃ کی مد سے زیادہ نہیں دے سکتے۔
جب ہمیں زکاۃ کے مصارف معلوم ہوگئے تو اس کے علاوہ دیگر مفاد عامہ یا خاصہ کیلئے زکاۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ مساجد کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر، دفاتر وغیرہ کیلئے زکاۃ صرف کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے زکاۃ کے مستحق مصارف کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ( فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) یعنی یہ زکاۃ کی تقسیم کے مصارف اللہ کی طرف سے فرض ہیں، اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال ہے کہ:
کیا ان آٹھ مصارف میں سے ہر ایک کو دینا لازمی ہے؟ کیونکہ "واو" حرف عطف کا استعمال کیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سب کو بیک وقت حکم میں شامل کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ:
ایسا کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: (انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ واجب کی ہے، جو تمہارے مخیر لوگوں سے لیکر غریب لوگوں میں تقسیم کی جائے گی) چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی صنف بیان کی، لہذا اس حدیث میں صرف مصرف بیان کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آیت میں زکاۃ کے مستحقین بیان فرمائے ہیں، نہ کہ یہ کہا ہے کہ سب کو زکاۃ بیک وقت دینا لازمی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ:
ان آٹھ مصارف میں سے کس کو زکاۃ دیتے ہوئے ترجیح دینی چاہیے؟
تو ہم کہیں گے: ترجیح اسی کو دی جائے گی جس کو تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی؛ کیونکہ ان تمام مصارف کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، اور ان میں سے ترجیح صرف اسی کو ملے گی جسے تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی، چنانچہ عام طور پر زیادہ ضرورت فقراء اور مساکین کو ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہی کا ذکر آیت کے شروع میں فرمایا:
"صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے" [التوبة:60]
واللہ اعلم.