"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں طلاق یافتہ خاتون ہوں، اور میری دو بیٹیاں ہیں، میں ہر ماہ اپنی بچیوں کے اخراجات میں سے اپنے علاج کے لیے کچھ رقم لیتی ہوں، میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، تاہم بچیوں کے کھانے پینے کی کفالت میرے والد صاحب کرتے ہیں، تو ہر ماہ میں اپنی بچیوں کے مال میں سے پیسے لوں ، اس کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں بہت مجبور ہو کر یہ کام کرتی ہوں۔
بچوں کی پرورش کرنے والی والدہ اپنے بچوں کے پیسوں میں سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے رقم لے سکتی ہے، بشرطیکہ والدہ کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی اور ذریعہ آمدن نہ ہو ۔
الحمد للہ.
اول:
اصولی طور پر بچوں کی پرورش کرنے والی والدہ اپنے بچوں کی پرورش کرنے کا معاوضہ نہیں لے سکتی؛ چنانچہ جو رقم اس کے بچوں کے لیے بھیجی جاتی ہے یہ اس کے پاس امانت ہوتی ہے، لہذا اس رقم کو بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں ہی خرچ کیا جا سکتا ہے۔
علامہ دردیر مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بچوں کے اخراجات میں سے والدہ اپنے آپ پر پرورش کے معاوضے کے طور پر خرچ نہیں کر سکتی۔” ختم شد
“بلغة السالك لأقرب المسالك” (2/765)
دوم:
والد اور والدہ دونوں کے لیے جائز ہے کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس قدر اپنی اولاد کے مال میں سے لے سکتے ہیں جس سے بچوں کو کوئی نقصان نہ ہو۔
اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اولاد مرد کی کمائی میں شامل ہے، بلکہ مرد کی بہترین کمائی ہے، چنانچہ تم اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ۔) اس حدیث کو ابو داودؒ: (3529) نے روایت کیا ہے اور البانی ؒنے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن الامیر صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابو زبیر رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: بچوں کی اجازت کے بغیر والدین ان کے مال میں سے رقم لے سکتے ہیں۔” ختم شد
“رسالة لطيفة في شرح حديث أنت ومالك لأبيك” (ص24). نیز اس اثر کو ابن حزم “المحلى” (6/385) میں اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بلا شبہ تمہاری اولادیں تمہارے لیے اللہ کا تحفہ ہیں، وہ جسے چاہے بیٹیاں عطا کرے اور جسے چاہے بیٹے عطا کرے۔ لہذا تمہاری اولادیں اور ان کے اموال تمہارے لیے ہیں جب تمہیں ان کی ضرورت ہو۔) اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک: (3123) میں روایت کیا ہے اور اسے بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق قرار دیا۔ اسی طرح علامہ بیہقیؒ نے اسے سنن الکبری: (15745) میں روایت کیا ہے، اور سلسلہ صحیحہ: (2564) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مزید کے لیے آپ سنن ابن ماجہ: (2137) پر علامہ شعیب الارناؤوط ؒ کی تعلیق ملاحظہ کریں۔
اگر والدہ تنگ دست ہو تو وہ اپنی اولاد کے مال میں سے لے سکتی ہے، پرورش کرنے کا معاوضہ بچوں سے نہیں لے سکتی، اس مسئلے کے متعلق علامہ صاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“پرورش کرنے والی والدہ بچوں کا خرچہ اپنے آپ پر پرورش کے معاوضے کے طور پر خرچ نہیں کر سکتی، البتہ والدہ تنگ دست ہو اور پرورش کرنے کے معاوضے سے ہٹ کر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے لینا چاہے تو بچے کے مال میں سے اپنے آپ پر خرچ کر سکتی ہے، چاہے یہ خرچ حضانت کے اخراجات کے برابر ہو یا زیادہ ہو؛ کیونکہ والدہ پرورش نہ بھی کرے تب بھی نفقے کی حقدار ہے۔” ختم شد
“حاشية الصاوي على الشرح الصغير” (2/765)
الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“والد اپنے بیٹے کے مال میں سے اتنا لے سکتا ہے جس سے بیٹے کو نقصان نہ ہو اور بیٹے کو اس کی ضرورت بھی نہ ہو؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاؤ، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے۔) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم اور تمہارا مال دونوں ہی تمہارے باپ کے لیے ہیں۔)
یہ والد کے حقوق کے بارے میں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، ایسے ہی یہ روایت والدہ کے حق کے بارے میں بھی ہے؛ کیونکہ والدہ کا حق بھی صحیح موقف کے مطابق والد کے برابر ہے؛ لہذا والدہ بھی اپنے بچوں کے مال میں سے لے کر فائدہ اٹھا سکتی ہے اور اپنی ضرورت پوری کر سکتی ہے، بشرطیکہ بچے کو والدہ کے اخراجات لینے کی وجہ سے نقصان نہ ہو، یا اس چیز کی بچے کو ضرورت نہ ہو۔” ختم شد
ماخوذ از: المنتقى من فتاوى الفوزان
مندرجہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
آپ اپنے علاج کے لیے اپنی اولاد کے پیسوں میں سے رقم لے سکتی ہے بشرطیکہ کو بچوں کو نقصان نہ ہو، یعنی: بچوں کی ضرورت پوری ہونے کے بعد آپ لے سکتی ہیں۔
واللہ اعلم