"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہڑتال كرنا ملازم اور مالك كے مابين معاہدہ ميں خلل اندازى ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں بدعہدى سے منع كيا اور ان معاہدوں كى پاسدارى كا حكم ديا ہے جو انسان كسى دوسرے كے ساتھ كرتا ہے، جو كام ملازم كے سپرد كيا گيا ہواسے وہ كام اسى طرح كرنا چاہيے جس سے اللہ تعالى كى رضا حاصل ہوتى، تا كہ اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان پر عمل ہو سكے:
اے ايمان والو! معاہدوں كو پورا كرو المائدۃ ( 1 ).
ہڑتال كرنے سے كچھ خرابياں اور آپس ميں تناؤ اور شدت پيدا ہو سكتى ہے، اور يہ ايسى چيز ہے جو شرع ميں پسنديدہ نہيں، كيونكہ فقھى قاعدہ اور اصول ہے كہ: خرابياں دور كرنا نفع حاصل كرنے سے زيادہ اولى اور بہتر ہے"
مطالبات منوانے كے ليے كئى قسم كے وسائل اور طريقے ہيں ہو سكتا ہے يہ ہڑتال سے زيادہ سود مند اور فائدہ ديں، ايك عقلمند انسان تو كسى شرعى اور سليم راہ اور طريقے پر عمل كيے بغير رہ ہى نہيں سكتا.
مزدورى اور تنخواہ نہ ملنے كى بنا پر كام كرنے سے انكار كرنا اور كام ترك كرنا جائز ہے، كيونكہ مالك نے معاہدہ كى خلاف ورزى كى اور اس ميں رخنہ ڈالا ہے، تو اس ليے مزدور اور ملازم كو بھى حق ہے كہ وہ مزدورى اور تنخواہ نہ ملنے تك كام نہ كرے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مزدور كو اس كا پسينہ خشك ہونے سے قبل اس كى مزدورى ادا كرو"
اسے ابن ماجۃ نے روايت كيا ہے.