"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
عورتوں كے ليے گھر ميں نماز ادا كرنا افضل ہے.
ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى سے روايت ہے وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور كہنے لگيں:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں جانتا ہوں كہ تو ميرے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہے، ليكن تيرا اپنے گھر كے اندر نماز ادا كرنا تيرا اپنے حجرے ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے اور تيرا اپنے حجرے ميں نماز ادا كرنا تيرے گھر كى چارديوارى ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنے گھر كى چارديوارى ميں نماز ادا كرنا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے.
راوى كہتے ہيں: چنانچہ انہوں نے حكم ديا تو ان كے ليے مسجد كى اندھيرى ترين اور آخر ميں نماز كے ليے جگہ بنا دى گئى، اور وہ موت تك وہيں نماز ادا كرتى رہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 26550 ) ابن خزيمہ نے اسے صحيح كہا ہے ( 1689 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 340 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
عبد العظيم آبادى كہتے ہيں:
عورتوں كى نماز گھروں ميں افضل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ اس ميں فتنہ سے امن رہتا ہے، اور اس كى تاكيد اور بھى زيادہ ہو جاتى كہ آج عورتوں نے جو بے پردگى اور زيبائش ظاہر كرنا شروع كر دى ہے.
ديكھيں: عون المعبود ( 2 / 193 ).
اس كے باوجود اگر عورت مسجد جا كر نماز ادا كرنا چاہے تو اسے منع كرنا جائز نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ باہر نكلنے كى شرعى شروط پر عمل كر كے نكلے، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارى عورتيں مسجد جانے كى اجازت مانگيں تو تم اپنى عورتوں كو اللہ تعالى ك مساجد سے منع نہ كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 865 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 442 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 9232 ) كا جواب بھى ديكھيں.
دوم:
نماز باجماعت ميں اصل يہ ہے كہ مقتدى امام كے پيچھے ہوں، امام سے آگے نماز ادا كرنے والے مقتدى كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اس ميں صحيح قول يہى ہے كہ كسى عذر ہونے كى حالت ميں جائز ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا مسجد ميں امام كے آگے يا پيچھے آڑ ہونے كى صورت ميں نماز ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" امام كے آگے مقتدى كا نماز ادا كرنے ميں تين قول ہيں:
پہلا قول:
مطلقا صحيح ہے، اگرچہ اس كى كراہت كا بھى كہا گيا ہے، امام مالك كا مشہور قول يہى ہے اور امام شافعى رحمہ اللہ كا قديم قول بھى يہى ہے.
دوسرا قول:
مطلقا صحيح نہيں، جيسا كہ امام ابو حنيفہ، امام شافعى، امام احمد كا مشہور مذہب ہے.
تيسرا قول:
عذر كى صورت ميں جائز ہے، بغير عذر صحيح نہيں، امام احمد وغيرہ كے مسلك ميں ايك قول يہى ہے، اور يہى قول راجح اور اعدل ہے؛ كيونكہ امام كے آگے نہ ہونا زيادہ سے زيادہ يہى ہے كہ يہ نمازباجماعت كے واجبات ميں سے ہو گا، اور سب واجبات عذر كى صورت ميں ساقط ہو جاتے ہيں.
اور اگر اصل نماز ميں واجب ہے، تو نماز باجماعت ميں بالاولى ساقط ہو گا؛ اسى ليے نماز ميں قيام، قرآت اور لباس، اور طہارت وغيرہ سے عاجز ہونے كى بنا پر نمازى سے ساقط ہو جاتى ہے.
اور نماز باجماعت ميں امام كى متابعت اور پيروى كرتے ہوئے وتر ركعات ميں بيٹھے گا ( يعنى وہ پہلى اور تيسرى ركعت كے بعد بيٹھے يہ اس شخص كے ليے ہے جو نماز ميں ايك ركعت بعد شامل ہوا ہو ) اور اگر وہ انفرادى نماز ميں عمدا اور جان بوجھ كر ايسا كرے تو اس كى نماز باطل ہو جائيگى، اور اگر وہ امام كو سجدے يا قعدہ كى حالت ميں پائے تو اس كى متعابعت كرتے ہوئے تكبير كہہ كر اس كے ساتھ سجدہ كرے اور بيٹھ جائے، حالانكہ يہ اس كے ليے شمار نہيں ہو گا، اور مقتدى امام كے سجدہ سہو كے ساتھ سجدہ سہو كرے گا اگرچہ وہ خود نہيں بھولا.
اور يہ بھى كہ نماز خوف ميں قبلہ رخ نہيں ہو گا، اور بہت زيادہ عمل كرے گا، اور امام كے سلام سے قبل ہى امام سے جدا ہو كر امام كے سلام پھيرنے سے قبل ہى پہلى ركعت مكمل كرے گا، اس كے علاوہ بہت سے ايسے كام جو جماعت كى بنا پر كرتا ہے، اگر وہ بغير عذر يہ كام كرے تو اس كى نماز باطل ہو جائيگى....
يہان مقصود يہ ہے كہ: حسب الامكان جماعت كى جائيگى، ليكن اگر مقتدى كے ليے امام كے آگے كھڑا ہونے كے علاوہ اس كى اقتدا كرنا ممكن نہ ہو تو زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ اس نے جماعت كى بنا پر پيچھے كھڑا ہونا ترك كيا ہے، اور يہ كسى دوسرے سے خفيف اور كم ہے.
اسى طرح صف كے پيچھے اكيلے كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے سے منع كيا گيا ہے، ليكن اگر اس كے ساتھ كھڑا ہونے والا كوئى نہ ہو، اور نہ ہى كسى كو اپنے ساتھ نماز كے ليے كھينج سكے تو وہ اكيلا ہى صف ميں نماز ادا كر لے اور جماعت نہ چھوڑے.
جيسے كوئى عورت اگر كسى دوسرى عورت كو نہ پائے تو اكيلى ہى صف كے پيچھے كھڑى ہو جائے، اس ميں آئمہ كا اتفاق ہے، صف بنانے كا حكم تو حسب الامكان ہے نہ كہ صف بنانے سے عاجز ہونے كى صورت ميں.
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 331 - 333 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا امام سے آگے كھڑا ہونا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" صحيح يہ ہے كہ امام كا آگے كھڑا ہونا واجب ہے، كسى كے ليے بھى اپنے امام سے آگے كھڑا ہونا جائز نہيں، كيونكہ كلمہ " امام " كا معنى يہ ہے كہ وہ آگے ہو، يعنى وہ قدوہ ہو، اور اس كى جگہ مقتديوں سے آگے ہے، چنانچہ كسى بھى مقتدى كے ليے امام كے آگے كھڑے ہور كر نماز ادا كرنا جائز نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى صحابہ كرام سے آگے كھڑے ہوا كرتے تھے، لہذا اس بنا پر جو لوگ امام سے آگے بڑھ كر نماز ادا كرتے ہيں ان كى كوئى نماز نہيں، ان كے ليے نماز لوٹانا واجب ہے، ليكن بعض اہل نے اس سے ضرورت اور حاجت كے وقت استثنى كيا ہے، مثلا مسجد تنگ ہو، اور اس كا ارد گرد لوگوں كے ليے كافى نہ ہو تو لوگ اس كے دائيں بائيں اور آگے اور پيچھے ضرورت كى بنا پر نماز ادا كريں " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 44 ).
اس بنا پر؛ آپ لوگ عورتوں كے ليے نماز كى جگہ پيچھے بنانے كى كوشش كريں، اور اگر جگہ نہ ملے اور امام كے آگے كے علاوہ كہيں اور ممكن نہ ہو تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .