"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرا سوال ہے كہ:
بيوى كے گھر والوں كے متعلق خاوند كے واجبات كى حد كيا ہے ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہى ہوں كہ جب ميرى والدہ مجھے ملنے آتى ہيں تو خاوند كى جانب سے مجھے بہت مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے، حتى كہ ميرى والدہ كے ساتھ اس كا رويہ بہت خراب اور برا ہوتا ہے ( يہ اس ليے ہوا كہ ميرے خاوند كے رشتہ داروں اور ميرى والدہ كے مابين جھگڑا ہوا ) حتى كہ خاوند نے ميرى والدہ وغيرہ كو گھر سے نكال ديا، جس كے نتيجہ ميں مجھے اپنى والدہ كے ساتھ مجبورا جانا پڑا حالانكہ خاوند مجھے اپنے ساتھ ركھنا چاہتا تھا، ( يہ علم ميں رہے كہ ميں كسى دوسرے ملك ميں رہتى ہوں اور اپنى والدہ كے ساتھ چلى گئى ) خاوند كا رويہ ميرے ساتھ ٹھيك تھا صرف اتنا ہے كہ والدہ كے ساتھ ايسا كرنے سے ميں غصہ ميں آگئى، حالانكہ اس نے دوسرے دن افسوس كا اظہار كيا، ليكن والدہ نے اسے معاف نہيں كيا، تو كيا اس كے ساتھ ميرا يہ رويہ صحيح ہے، يا كہ ميں نے خاوند كى نافرمانى كى ہے، جيسا كہ اللہ تعالى نے خاوند كى اطاعت كى وصيت كى ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرے اور ان كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آئے، كيونكہ اس كا ايسا كرنا بيوى كے ساتھ حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے، اور ايسا كرنے سے بيوى كے دل ميں اس كى محبت اور الفت پيدا كرے گا، اور وہ اسے قدرومنزلت كى نظر سے ديكھے گى اور ان دونوں كے مابين محبت و مودت ميں اضافہ كا باعث ہو گا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان كے ساتھ اچھے اور بہتر طريقہ سے بودوباش اختيار كرو النساء ( 19 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يعنى: جيسے تم ان سے چاہتے ہو اسى طرح حسب استطاعت اور قدرت ان كے ليے بھى اپنے قول وفعل اور عمل ميں ان كے ليے اچھائى اور بہترى پيدا كرو، تو تم بھى اس جيسا ہى كام كرو جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( عورتوں ) كے ليے بھى اسى طرح ہيں جس طرح ان پر ہيں بہتر اور اچھے طريقہ سے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے بہتر اوراچھا وہ ہے جو اپنے اہل وعيال كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم ميں سے اپنے اہل وعيال كے ليے بہتر ہوں "
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 285 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے. انتہى.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 477 ).
دوم:
اور رہا مسئلہ خاوند كى آپ كى والدہ كو گھر سے نكالنا تو اس نے اس كى اس نے معذرت كر لى ہے، اور جس كا بھائى اپنى غلطى كى معافى مانگ لے اور معذرت كر لے اسے چاہيے كہ وہ اس كى معذرت كو قبول كرے اور اس كى غلطى كو معاف كر دے.
اور شادى شدہ عورت كو معلوم ہونا چاہيے كہ خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت پر مقدم ہے، لھذا مرد نيكى ميں اپنى والدہ پر كسى كو بھى مقدم نہيں كرے گا، اور بيوى كے لائق نہيں كہ وہ خاوند كى اطاعت پر كسى اور كو مقدم كرے؛ يہ اس ليے كہ اس كا بيوى پر عظيم حق ہے، اور عورت پر مرد كے عظيم حق ميں يہ شامل ہے كہ شريعت اسلاميہ تو اس كے قريب تھى كہ بيوى كو حكم ديتى كہ وہ خاوند كو سجدہ كرے، ليكن ايسا اس ليے نہيں كيا كہ انسان ميں سے كسى كو بھى سجدہ كرنا جائز نہيں ہے.
اور خاوند كو بھى يہ حق نہيں پہنچتا كہ وہ بيوى كے گھر والوں كو اپنى بيٹى سے ملنے منع كرے، ليكن اگر اسے يہ خدشہ ہو كہ ايسا كرنے سے بيوى ميں فساد پيدا ہو گا يا وہ بيوى كو مخالفت پر ابھاريں گے تو ـ اس وقت ـ خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے.
سوم:
آپ سے دو قسم كى غلطياں ہوئى ہيں اور دو بار آپ نے شرعيت كى مخالفت كى ہے:
پہلى غلطى يہ ہے كہ گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير نكلى ہيں، اور دوسرى غلطى محرم كے بغير سفر كيا ہے.
گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير نكلنا حرام ہے، بلكہ اللہ تعالى نے تو رجعى طلاق والى عورت كو بھى اپنے گھر سے نكلنے سے منع فرمايا ہے، تو پھر اگر ايسا نہ ہو تو معاملہ كس قدر ہو گا ؟!
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ( اپنى امت سے كہہ دو ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو، اور عدت كا حساب ركھو، اور اللہ تعالى سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، تم انہيں ان كے گھروں سے نہ نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى كر بيٹھيں، يہ اللہ تعالى كى مقرر كردہ حديں ہيں جو شخص حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے يقينا اپنے اوپر ظلم كيا الطلاق (1)
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى كہتے ہيں: اللہ تعالى كى كتاب ميں خاوند سردار ہے، اور انہوں نے يہ آيت تلاوت كى:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان دونوں نے اس كے سردار كو دروازے كے قريب پايا يوسف ( 25 ).
اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى كا فرمان ہے:
نكاح غلامى ہے، اس ليے تم ميں سے كسى ايك كو ديكھنا چاہيے كہ وہ اپنى عزيز بچى كس كى غلامى ميں دے رہا ہے.
اور ترمذى وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتوں كے ساتھ بہتر سلوك كرو، كيونكہ وہ تمہارے پاس قيدى ہيں"
لہذا عورت اپنے خاوند كے پاس غلام اور قيدى كے مشابہ ہے، اس ليے عورت كو كوئى حق نہيں كہ وہ اس كے گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير نكلے، چاہے عورت كو اس كا والد يا والدہ يا كوئى اور حكم دے، اس پر آئمہ كرام كا اتفاق ہے" انتہى.
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 148 ).
ابن مفلح حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے ليے خاوند كے گھر سے بغير اجازت نكلنا حرام ہے، ليكن ضرورت يا كسى شرعى واجب كى بنا پر نكل سكتى ہے" انتہى
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 3 / 375 ).
اور رہا عورت كا بغير محرم سفر كرنے كا مسئلہ تو يہ بغير محرم سفر كرنا حرام ہے، اس كے بارہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث وارد ہيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ: جسے سفر كا نام ديا جاتا ہے اس سے عورت كو خاوند كے بغير يا بغير محرم سفر كرنے سے منع كيا جائے گا، چاہے وہ تين دن يا دو يا ايك دن كا ہو، يا پھر ايك منزل وغيرہ ہى ہو، اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" محرم كے بغير عورت سفر نہ كرے"
اور يہ حديث سب كو شامل ہے جسے سفر كا نام ديا جاتا ہے. واللہ اعلم. انتہى.
ديكھيں: شرح المسلم ( 9 / 103 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
اور منزل تقريبا بيس كلو ميٹر كى مسافت كو كہا جاتا ہے.
گزارش ہے كہ آپ سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب كو ضرور ديكھيں كيونكہ اس ميں خاوند اور بيوى كے حقوق كا ذكر ہے.
واللہ اعلم .