"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرى بيٹى دائمى نفسياتى مريضہ ہے ( وجدانى اضطراب كى شكار ہے ) پچھلے رمضان ميں اس نے روزے نہيں ركھے كيونكہ وہ اپنے حواس كھو بيٹھى تھى ميں بہت مہينوں تك اس سے پريشان رہى چنانچہ مجھے كيا كرنا چاہيے؟
دوسرا سوال يہ ہے كہ:
اس سے حاصل ہونے والى مشقت كى بنا پر يہ ہوتا كہ جب بيٹى سو جاتى تو ميں اسے كسى بھى نماز كے ليے بيدار نہيں كرتى تھى، كيا اس بنا پر ميرے ذمہ كچھ گناہ تو نہيں ہوا ؟
بچى كى عمر تئيس 23برس ہے اور تقريبا چار برس سے وہ اس بيمارى كى شكار ہے، اور سال ميں دو بار حواس كھو بيٹھتى ہے، آپ سے اس كى شفايابى كے ليے دعاء كى گزارش ہے.
الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعاء ہے كہ وہ آپ كى بيٹى كو شفايابى نصيب فرمائے اور اس كى حالت درست كرے.
دوم:
اگر تو اس كى بيمارى اتنى شديد ہے كہ رمضان المبارك ميں اس كے حواس درست نہ رہے اور وہ اپنے حواس كھو بيٹھى تو اس پر قضاء لازم نہيں، اور نہ ہى كفار ہو گا، كيونكہ وہ اس وقت روزہ ركھنے كى مكلف نہ تھى.
ليكن اگر مرض صرف شكستہ دلى اورغمگينى ہے اور حواس صحيح ہيں تو اس كى دو حالتيں ہو نگى:
پہلى حالت:
اس كى بيمارى ايسى ہو كہ اس مرض سے شفايابى كى اميد ہو يعنى ڈاكٹروں كى رپورٹ كے مطابق اسے شفا ہو سكتى ہے، تو بيمارى ختم ہونے كے بعد اس پر فوت شدہ روزوں كى قضاء واجب ہو گى.
دوسرى حالت:
يہ كہ اس كى بيمارى سے شفايابى كى اميد نہ ہو تو اس پر روزے واجب نہيں، بلكہ وہ ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك مريض نے ماہ رمضان كا كچھ حصہ پايا پھر اس كى حواس ٹھكانے نہ رہے اور ابھى تك وہ اسى حالت ميں ہے، تو كيا اس كے بيٹے اس كى جانب سے روزے ركھيں گے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اگر كسى شخص كو ايسى بيمارى لاحق ہو جو اس كے حواس اور ہوش كو ختم كر دے اور اس كى عقل جاتى رہے جسے بے ہوشى كا نام ديا جاتا ہے، اگر اس كے ہوش و حواس واپس آ جائيں تو اس پر قضاء نہيں ہو گى، اس كى مثال مجنون اور ديوانے اور پاگل اور بے عقل كى ہے جس پر كوئى قضاء نہيں، ليكن اگر بے ہوشى كچھ وقت يعنى ايك يا دو يا زيادہ سے زيادہ تين روز كے ليے ہو تو احتياطا قضاء كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر بے ہوشى اس سے زيادہ لمبى مدت كى ہو تو پھر بے عقل اور مجنون كى طرح ہو گا، جب اللہ تعالى اس كى عقل صحيح كر دے تو وہ اعمال شروع كرے گا " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 15 / 209 ).
سوم:
اگر آپ كى بيٹى نماز كے وقت ميں بيدار نہيں ہوتى يا آپ اسے بيدار نہيں كر سكتى تو ان شاء اللہ تعالى اس ميں كوئى حرج نہيں، اس پر واجب ہے كہ جب وہ بيدار ہو تو فوت شدہ نمازيں قضاء كر كے ادا كر لے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب ياد آئے تو نماز ادا كر لے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ).
اور اگر اس كے ليے وقت ميں ہر نماز ادا كرنا مشكل ہو تو وہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كر كے ادا كر لے، چاہے جمع تقديم كرے يا جمع تاخير جس طرح اس كے ليے آسانى ہو.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" قصر كا سبب خاص كر سفر ہے، اس ليے سفر كے علاوہ نماز قصر كرنى جائز نہيں، ليكن جمع كا سبب ضرورت اور حاجب ہے، چنانچہ جب ضرورت ہو تو لمبے اور چھوٹے سفر ميں جمع ہو سكتى ہے.
اور اسى طرح بارش اور بيمارى وغيرہ كے ليے بھى نمازيں جمع ہو سكتى ہيں، اس كے علاوہ كسى اور سبب كى بنا پر بھى؛ كيونكہ اس كا مقصد امت سے رفع الحرج يعنى تنگى اور مشكل كو ختم كرنا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 293 ).
واللہ اعلم .