"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں شيطان كو گالى دينے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
كسى بھى مسلمان اور مومن شخص كے لائق نہيں كہ وہ اپنى زبان كو گالى اور سب وشتم كا عادى بنائے، چنانچہ اسى كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مؤمن شخص نہ تو طعنى زنى كرنے والا ہوتا ہے، اور نہ ہى لعن و طعن كرنے والا، اور نہ ہى فحش گو، اور گرى ہوئى باتيں كرنے والا "
اسے ترمذى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر روزہ دار كو تو دوسرے سے زيادہ حسن اخلاق اختيار كرنے كا حكم ديا گيا ہے، اسى ليے اس كے ليے سب و شتم كو ترك كرنا ضرورى اور يقينى ہے، چاہے وہ حق پر بھى ہو، اور اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روزے دار كو دشمنى ميں اس كا مقابلہ كرنے سے منع فرمايا ہے، بلكہ فرمايا كہ جب اسے كوئى شخص گالى دے يا اس سے لڑائى كرے تو وہ جواب ميں اسے يہ كہے: ميں روزے سے ہوں، ميں روزے سے ہوں "
متفق عليہ.
حالانكہ عداوت كا اسى طرح سے جواب دينا جائز ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ تم پر جو كوئى بھى زيادتى كرے تو تم بھى اس پر اتنى ہى زيادتى كرو جتنى اس نے تم پر كى ہے البقرۃ ( 194 ).
ليكن روزے دار كو افضل اور بہترين اعمال كرنے، اور برے اعمال سے اجتناب كرنے كا حكم ديا گيا ہے.
اور مؤمن شخص كو جب بھى شيطانى وسوسہ آئے تو شيطان كو گالى دينے اور برا كہنے سے اسےكوئى فائدہ نہيں ہوگا، بلكہ اس كے ليے مشروع تو يہ ہے كہ اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اگر آپ كو شيطان كى جانب سے كوئى وسوسہ ابھارے تو آپ اللہ كى پناہ مانگيئے، يقينا وہ سننے والا جاننے والا ہے حم السجدۃ ( 36 ).
ابو المليح ايك شخص سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سوار تھا كہ جانور بدك گيا، تو ميں نے كہا: شيطان تباہ و برباد ہو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم يہ نہ كہو كہ شيطان تباہ و برباد ہو، كيونكہ جب تم يہ كلمات كہو گے تو وہ اپنے آپ كو بڑا سمجھےگا حتى كہ وہ گھر كى مانند ہو جاتا ہے، اور كہنے لگتا ہے: ميرى قوت سے ہوا ہے ! بلكہ تم بسم اللہ كہو، كيونكہ جب تم يہ الفاظ كہوگے تو وہ مكھى جتنا ہو جاتا ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 20067 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4982 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .