الحمد للہ.
قبل اس کے ہم خاندان کی حفاظت و نظم میں اسلام کا کردار جانیں ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام سے قبل اوراس دورمیں یورپ کے ہاں خاندان کی کیا حیثیت ہے ؟
قبل ازاسلام خاندان ظلم وستم پرمشتمل تھا ، جس میں صرف مردوں کو ہی ہر قسم کا شرف و شان و مرتبہ حاصل تھا یا دوسرے معنی میں ہم یہ کہہ سکتے کہ صرف مذکر کوہی خاص حیثيت حاصل تھی ۔
عورت یا لڑکی ایک مظلوم اورذلیل سی چيزتھی ، اس کی مثال یہ ہے کہ اگرمرد فوت ہوجاتا اوراپنے پیچھے اس نے بیوی چھوڑي ہوتی تو مرد کی دوسری بیوی کے بچے کویہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے شادی کرلے اوراس پراپنا حکم چلاۓ ، یا پھر اسے شادی کرنے سے ہی منع کردے ۔
اوروراثت کے حقدار صرف مرد ہی ہوتے تھے لیکن عورتوں اورچھوٹے بچوں کوکچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تھا ، توعورت چاہے وہ ماں ہویا بیٹی ہرحالت میں اسے عارذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، اس لیے کہ ہوسکتا ہے وہ قیدی بن جاۓ اپنے خاندان والوں کے لیے ذلت و عار کا باعث بن جاۓ تواسی بنا پرآدمی اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے ۔
اللہ تبارک وتعالی نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا :
ان میں سے جب کسی کولڑکی ہونے کی خبر دی جاۓ تواس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اوردل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے ، ا س بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے سوچتا ہے کہ کیا اس ذلت کوساتھ لۓ ہوۓ ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے ، آہ وہ کیا ہی برے فیصلے کرتےہیں ؟ النحل ( 58 ) ۔
اورخاندان کا ایک بڑا مفہوم قبیلہ تھا جو کہ ایک دوسرے کی مدد وتعاون کی اساس پرقائم ہوتا چاہے وہ مدد وتعاون ظلم پر ہی ہو ، توجب اسلام آیا تویہ سب غلط اشیاء کومٹا کرعدل وانصاف کرتے ہوۓ ہر حقدار کواس کا حق لے کر دیا حتی دودھ پیتے بچے کوبھی اس کا حق دلایا ، حتی کہ ساقط ہونے والے بچہ کوبھی یہ حق دیا کہ اس اس کی قدرکی جاۓ اوراس پرنماز جنا زہ پڑہی جاۓ ۔
اورآج کے موجودہ دورمیں یورپ کے خاندان کودیکھنے اوراس پرنظر دوڑانے والا اسے بالکل ٹوٹا پھوٹا اورجدا جدا ہوا چکے دیکھے گا والدین کوکسی قسم کوئ حق نہيں کہ وہ اولاد پرکنٹرول کرسکیں نہ توفکری اورنہ ہی خلقی اعتبار سے ۔
یورپ میں بیٹے کویہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے اورجو چاہے کرتا پھرے اسے کوئ روکنے والا نہیں ، اوربیٹی کوبھی یہ آزادی ہے کہ وہ جہاں اورجس کے ساتھ مرضی بیٹھے اورآزادی اورحقوق کی ادائیگي کے نام سے جس کے ساتھ سوتی رہے اورراتیں بسرکرتی پھرے توپھرنتیجہ کیا ہوگا ؟
بکھرے خاندان ، شادی کے بغیر پیداشدہ بچے ، اورماں باپ کا خیال رکھنے والا کوئ نہیں اورنہ ان کا کوئ غمخوار ہے ، کسی عقلمند نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :
آگرآپ ان لوگوں کی حقیقت کا جاننا چاہتے ہيں توآپ جیلوں اورہسپتالوں اوربوڑھے لوگوں کے گھروں میں جا کر دیکھے ، اولاد اپنے والدین کوصرف تہواروں اور کسی خاص فنگشنوں میں ہی ملتے ہیں اوروہیں ان کی ایک دوسرے سے پہچان ہوتی ہے ۔
توشاھد یہ ہے کہ غیرمسلموں کے ہاں خاندان ایک تباہ حالی کی حیثیت رکھتا تھا جب اسلام آیاتو اس نے خاندان کواکٹھااوراسے استوار کرنے کا بہت زيادہ خیال رکھتے ہوۓ اس ہر اس چيز سے حفاظت کی جواس کے لیے نقصان دہ اوراذیت کا باعث بن سکے ۔
اورخاندان کوایک دوسرے کے ساتھ ملانے کی حفاظت کرتے ہوۓ اس کے ہرفرد کواس کی زندگی میں اہم کرداربھی دیا جسے ادا کرکے ایک اچھا خاندان بن سکتا ہے ۔
اسلام نے عورت کوماں ، بیٹی اوربہن کے روپ میں عزت دی :
ماں کے روپ میں اسے عزت دی اس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ اس طرح فرمان ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آ کرکہنے لگا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زيادہ کون مستحق ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمايا ، تیری ماں ۔
اس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : تیری ماں
اس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : تیری ماں
اس نے کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تیرا باپ ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5626 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2548 )
بیٹی کے روپ میں اسلام نے اسے کچھ اس طرح عزت دی :
ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس کی بھی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ، یا پھر دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں اوروہ ان کی اچھی تربیت کی اوران کے معاملات میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہا وہ جنت میں جاۓ گا ۔ صحیح ابن حبان ( 2 / 190 ) ۔
بیوی کے روپ میں اسلام نے عورت کو کچھ اس طرح عزت سے نوازا :
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم میں سب سے بہتر اوراچھا وہ شخص ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے ، اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب میں سے بہتر برتاؤ کرتا ہوں ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3895 )امام ترمذی نےاسےحسن کہا ہے ۔
اسلام نے عورت کو وراثت وغیرہ سے اس کا حق دیا اور بہت معاملات میں اسے مردوں کی طرح حق دلوایا :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
عورتیں مردوں کی طرح ہی ہیں ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 236 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 216 ) میں صحیح کہا ہے ۔
اسلام نے بیوی کے بارہ میں وصیت کی اورعورت کوخاوند کے اختیار میں بھی آزادی دی اوراس پرتربیت اولاد کی مسؤلیت کا ایک بڑا حصہ رکھا ۔
اسلام نے ماں اورباپ پراولاد کی تربیت کے بارہ میں بہت بڑی مسؤلیت اورذمہ داری رکھی ہے :
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :
( تم میں سے ہرایک راعی ( سربراہ ) ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، امیرراعی ہے وہ اپنے ماتحتوں کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اورآدمی آپنے گھر والوں پرسربراہ ہے وہ ان کے متعلق جواب دہ ہوگا ، عورت خاوند کے گھرپرراعیہ ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، اور غلام اپنے مالک کے مال کا راعی ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، )
عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ میں نے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا
صحیح بخاری حدیث نمبر (853) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1829 ) ۔
اسلام نے والدین کے ادب واحترام اوران کے فوتگی تک اطاعت کرنے اوران کا خیال اوران کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا اسی سلسلہ میں کچھ اس طرح فرمان ہے :
اورآپ کے رب نے صاف صاف یہ حکم دے رکھا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، اگرتمہارے موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کے آگے اف تک نہ کہنا ، اورنہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سےبات چیت کرنا الاسراء ( 23 ) ۔
اسلام نے خاندان کی عزت وعفت اورپاکيزگی و نسب کی حفاظت کرتے ہوۓ شادی کرنے پرابھارا ہے اورمردوعورت کے درمیان اختلاط اورمیل جول کومنع کیا ہے ۔
اورخاندان کے ہرفرد کواس کا ایک اہم کردار دیا ماں باپ کے ذمہ اولاد کی تربیت اوراولاد کے ذمہ والدین کی سمع و اطاعت ، کرنے کا حکم دیا ۔
اوروالدین کے حقوق کو محبت و تعظيم کے ساتھ محفوظ کیا اوراس کی سب سے بڑي دلیل وہ خاندانی تماسک اورمیل جول ہے جس کی شہادت ہر ایک حتی کہ دشمن بھی دیتے ہیں
واللہ اعلم .