سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایسے پانی سے تبرک حاصل کرنا جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک ہے

100105

تاریخ اشاعت : 12-04-2014

مشاہدات : 10453

سوال

سوال: میں اردن میں ایک درس میں شامل ہوئی، جس کا عنوان مسجد اقصی اور غلبہ دین کے متعلق تھا، اور درس دینے والی خاتون ہمارے لئے ایسا پانی بھی لیکر آئی تھی جس میں حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ڈبویا گیا تھا، یہ بال فلسطین کے شہر عکا کی ایک مسجد الجزار میں موجود ہے، اس پانی کو شیشے کی بوتل میں محفوظ کیا گیا تھا، پھر انہوں نے اس پانی کو ایک بڑی ٹینکی میں ملا دیا تا کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی تعداد مستفید ہوسکے، میں نے بھی انکی طرح پانی لے لیا، ، ، سوال یہ ہے کہ کیا اس پانی سے شفا یابی اور برکت کیلئے تبرک حاصل کرنا جائز ہے؟ ہمیں آپ فتوی دیں، اللہ تعالی آپکو ساری بھلائیاں بدلے میں عنائت فرمائے، یاد رہے! پانی ابھی تک میرے پاس موجود ہے، اور میں نے ابھی تک اسے استعمال نہیں کیا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو) مسلم (1305)

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔ بخاری (6281)

"نطع" چمڑے کے بچھونے کو کہتے ہیں۔

"سُک"خوشبو کی ایک قسم ہے جو کستوری وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے۔

اس حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے جدا ہونے والا بال یا پسینہ وغیرہ میں اللہ تعالی نے برکت ڈال دی ہے، جس سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اسکی وجہ سے دنیا و آخرت میں خیر کی امید کی جاسکتی ہے، جبکہ خیر دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔

لیکن موجودہ دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال یا آپ کے باقیماندہ آثار کی موجودگی کا دعوی بلا دلیل ہوگا، اور عام طور پر اس بارے میں جتنی بھی باتیں ہیں سب فراڈ اور خرافات میں سے ہیں، جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے کیونکہ جب اسے دھوپ میں رکھا جائے تو اسکا سایہ نہیں بنتا!! اس قسم کی باتوں پر دھیان بھی نہیں دینا چاہئے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اور ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، بال، یا دیگر باقیماندہ اشیاء گم ہوچکی ہیں، اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر اس قسم کی اشیاء کو ثابت نہیں کرسکتا " ماخوذ از: "التوسل" صفحہ: 147

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے بعد ، جس پانی کے بارے میں پوچھا گیا ہے اس سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ، یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ اس پانی میں رکھا جانے والا بال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے، اور اس چیز کو ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اس لئے فریب کاروں، بدعات کو ترویج دینے والوں، اور دھوکے بازوں سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح علم بھی انہی لوگوں سے حاصل کرنا چاہئے جو صحیح منہج کا دفاع کرتے ہیں اور اسی کی ترویج کرتے ہیں، عقلمند آدمی خود ہی سوچے کہ گفتگو نے کیسے غلبہ دین کے موضوع سے رخ موڑ کر لوگوں کو غیر ثابت معاملات کی طرف متوجہ کردیا! حالانکہ درس دینے والی خاتون کو چاہئے تھا کہ لوگوں کو درست منہج کی جانب دعوت دیتیں، اور اس پر کاربند رہنے کی نصیحت کرتیں؛ کیونکہ درست منہج پر رہنا بھی غلبہ دین کے اسباب میں سے ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپکو اچھے انداز میں اتباع کرنے کی توفیق دے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب