جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اس حدیث کا معنی کہ قل ھواللہ احد قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے ۔

10022

تاریخ اشاعت : 01-02-2008

مشاہدات : 33875

سوال

آپ کا سوال نمبر ( 4156) کا بند نمبر ( 2 ) کے جواب کی بنا پر یہ ہے کہ پھر ہمیں اس کی کوئ ضرورت نہیں کہ قرآن کریم کو مکمل پڑھااور سیکھا جاۓ یا یہ کہ رمضان کریم میں قرآن پڑھا جاۓ ۔۔ الخ ، جو بھی ضرورت ہو تو سورۃ اخلاص پڑھ لی جاۓ ۔ میرا خیال ہے کہ آپ سے غلطی ہوئ ہے کہ سورۃ اخلاص قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے یہ تو بہت ہی حیران کن بات ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ سورۃ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھنے سے مکمل قرآن کی برکت حاصل ہوتی ہے ، تو پھر اس وقت تو مکمل قرآن کو کوئ فائد نہ ہوا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

یہ وہ کچھ احاديث ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ اخلاص کی فضیلت میں ثابت ہیں اور ان میں اس بات کا ذکر ہے کہ یہ سورت قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے ۔

ابو سعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ قل ھو اللہ احد کو بار بار پڑھ رہا ہے تو وہ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا‎س آۓ اور اس بات کا تذکرہ کیا ، گویا کہ انہوں نے اسے قلیل جانا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ( اس ذات کی قسم جس کے ھاتھ میں میر ی جان ہے بیشک یہ سورۃ قرآن کے تیسرے حصہ کے برابر ہے ) ۔ صحیح بخاری ( 6643 ) ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کیا تم میں سے کوئ ایک رات میں قرآن کا تیسرا حصہ پڑھنے سے عاجز ہے ؟ تو صحابہ کرام کہنے لگے قرآن کا تیسرا حصہ کس طرح پڑھا جاۓ ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل ھواللہ احد قرآن کےتیسرے حصہ کے برابر ہے ) صحیح مسلم ( 811 ) ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جمع ہوجاؤ کیونکہ میں تم پر قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں گا تو جمع ہوا وہ ہوگیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاۓ اور قل ھو اللہ احد پڑھی اورپھر چلے گۓ ، تو ہم ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ آسمان سے کوئ خبر آئ ہے جس کی بنا پر آپ اندر چلے گۓ ہيں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لاۓ اور کہنے لگے کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تم پر قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں گا خبردار بیشک یہ قرآن کے تیسرے حصہ کےبرابر ہے ) صحیح مسلم ( 812 ) ۔

دوم :

اللہ تبارک وتعالی کا فضل بڑا وسیع ہے ، اوراللہ تعالی نے اس امت پر بڑا فضل وکرم کیاہے کہ اس کی عمر کم ہونے کے عوض چھوٹے چھوٹے کاموں پر بہت ہی زیادہ اجرو ثواب رکھا ہے ، اور اس بات پر تعجب ہے کہ کـچھ لوگ خیر اور بھلائ کے کام زیادہ کرنے کی حرص رکھیں وہ اس کے بدلہ میں سستی اور اطاعت میں کاہلی کا شکار ہوگۓ ہیں ، یا پھر وہ اس اجرو ثواب پر تعجب کرتے اور اسے بعید سمجھتے ہیں ۔

اور حدیث کے معنی کے متعلق یہ ہے کہ :

جزاء یعنی بدلہ اور اجزء (یعنی کسی دوسرے سے کافی ہوجاۓ ) میں فرق ہے اور یہی وہ چیز ہے جس میں سائل فرق نہیں کرسکا اور اشکال میں پڑھ گیا ہے ۔

جزاء اس اجر اور ثواب کو کہا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالی اپنی اطاعت کے بدلہ ميں دیتا ہے ۔

اور اجزاء یہ ہے کہ وہ چیز جو کسی دوسری چیز کی جگہ لے اوراس سے کفایت کرجاۓ ۔

تو قل ھواللہ احد پڑھنے کی جزاء اور بدلہ ثلث قرآن پڑھنے کے برابر ہے یہ نہیں کہ یہ قرآن کا تیسرا حصہ پڑھنے سے کفایت کرے گا ۔

مثلا اگر کوئ یہ نذر مانے کہ وہ قرآن کا تیسرا حصہ پڑھے گا تو اس کے لۓ قل ھواللہ احد پڑھنا کافی نہیں کیونکہ یہ اجرو ثواب میں ثلث قرآن کے برابر ہے ، نہ کہ ثلث قرآن کے پڑھنے میں یہ کافی ہوگی ۔

اور اسی طرح یہ مثال تین مرتبہ پڑھنے میں بھی ہے ، تو جس سے اسے نماز میں تین بار پڑھ لیا تو یہ سورۃ فاتحہ سے کفایت نہیں کرے گی ، اس کے باوجود کہ اسے اجروثواب مکمل قرآن کریم کا ملے گا ، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ یہ اسے سورۃ فاتحہ کی جگہ پر بھی کافی ہے ۔

اور اسی طرح شریعت میں بھی ہے کہ شارع نے حرم مکی میں ایک نماز پڑھنے والے کو ایک لاکھ نماز کا اجرو ثواب دیا ہے ، تو کیااس فضل ربانی سے یہ سمجھنا چاہۓ کہ دسیوں سال نماز کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس نے ایک نماز حرم مکی میں پڑھ لی ہے جو کہ ایک لاکھ کے برابر ہے ؟ تو یہ سب اجر ثواب میں ہے لیکن کفایت ایک اور چیز ہے ۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ آج تک کسی اہل علم نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں قرآن کریم کی حاجت و ضرورت نہیں اوریہ کہ قل ھو اللہ احد اس سے کافی ہے ،اہل علم میں سے صحیح قول تو یہ ہے کہ اس سورۃ کو فضل عظیم حاصل ہے اس لۓ کہ قرآن کریم تین اقسام پر نازل ہوا ہے ، اس میں سے ثلث احکام ہیں اور ثلث وعد اور وعید کے لۓ اور ثلث اسماء و صفات کے لۓ ہے ۔

اور اس سورۃ میں اسماء وصفات جمع ہیں ۔ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ کا یہی قول ہے اور اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے حسن قرار دیا ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 17 / 103 ) ۔

اور مسلمان باقی دونوں اوامریعنی احکام اور وعد اور وعید سے مستغنی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کی اسے کتاب اللہ کو دیکھے اور اس میں غوروفکر کيۓ‎ بغیر ان دونوں کی معرفت ہو سکتی ہے ، اور نہ ہی اس آدمی کے لۓ جو کہ سورۃ قل ھو اللہ احد پر ہی رہے یہ ممکن ہے کہ وہ ان دونوں اوامر کو جان سکے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

اور صحیح یہ ہے کہ جس طرح اموال کی مختلف جنسیں ہیں یعنی کھانے اور پینے اور پہننے اور رہنے اور نقدی وغیرہ والی جنس تو اسی طر ح ثواب کی مختلف جنسیں ہیں ، تو جب آدمی کسی مالی جنس کا مالک بن جاۓ جو کہ مثلا ہزار دینار کے برابر ہوتو اس سے یہ لازم نہیں آۓ گا کہ اب وہ ساری مالی جنسوں سے بھی کافی ہے ، بلکہ اگر اس کےپاس مال جو کہ کھانے کی شکل میں ہے ہو تو اسے لباس اوررہائش کی بھی ضرورت ہوگی ، اور اسی طرح اگر اس کے پاس نقدی جنس کے علاوہ کو‏ئ اور ہو تو وہ ا س کے علاوہ اور کا بھی محتاج ہوگا ، اور اگر اس کے پاس صرف نقدی ہو تووہ ان ساری انواع کا محتاج ہو گا جو کہ اس کے منافع اور انواع کا محتاج ہے ۔

اور سورۃ الفاتح میں بہت سے منافع ہيں مثلا اس میں حمد وثنا اور دعا ہے انسان جس کامحتاج ہے تو اس کے قائم مقام قل ھو اللہ احد نہیں ہو سکتی ، چاہے اس کا اجر ثواب کتنا ہی عظیم ہی ہے تو اس اجرعظيم سے اس کا پڑھنے والا سورۃ فاتحہ کے اجر کے ساتھ اس سے بھی مستفید ہوگا ، تو لھذا اگر کسی نےنمازمیں سورۃ فاتحہ کے بغیر صرف قل ھواللہ احد پڑھی تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی ، اور اگر یہ بھی مان لیا جاۓ کہ اس نے مکمل قرآن پڑھا لیکن فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نمازصحیح نہیں ہوگی ، اس لۓ کہ فاتحہ کے معانی میں ایسی حوائج اصلیہ ہیں جس کے بغیر بندوں کا کوئ چارہ ہی نہیں ۔

مجموع الفتاوی ( 17 / 131 )۔

ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

قرآن کریم میں جو اوامرو نواہی اور قصص ہیں لوگ اس کے محتاج ہیں ، اگرچہ توحید اس سے بھی زیادہ بڑی اور عظیم چیز ہے ، تو جب انسان جن افعال سے اسے روکا گیااور جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اس کی معرفت کا محتاج ہے اوراسے چاہۓ کہ وہ قصص اور وعدووعید سے عبرت حاصل کرے ، تو یہ سب کسی اورچیز کی جگہ نہیں لے سکتے ، اس لۓ توحید ان کی جگہ اور قصص امر اور نہی کی جگہ نہیں لے سکتے ، اور نہ ہی امر اور نہی قصص کی جگہ لے سکتے ہیں ، بلکہ اللہ تعالی نے جو کچھ بھی نازل فرمایا ہے اس سے لوگ نفع مند ہو رہے اوراس کے محتاج ہیں ۔

تو اگر انسان قل ھو اللہ احد پڑھے تو اسے ثلث قرآن کا اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے لیکن اس سے یہ ضروری نہیں کہ یہ اجروثواب اسی جنس سے ہو جو کہ باقی قرآن پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ امر و نہی اور قصص سے وہ ثواب حاصل کرنے کا محتاج ہو تو قل ھو اللہ احد اس کی جگہ اور یہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا ۔

پھر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :

تو وہ معارف جو کہ مکمل قرآن پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں وہ صرف یہ سورت پڑھنے سے حاصل نہیں ہوں گے ، توثواب کی اس نوعیت کے اعتبارسے مکمل قرآن پڑھنے والا قل ھواللہ احد کو تین مرتبہ پڑھنے والے سے افضل ہے ، اگرچہ قل ہو اللہ احدتین مرتبہ پڑھنے والے کو بھی اس قدر ہی ثواب حاصل ہوگا لیکن یہ ایک ہی جنس ہے جس میں کوئ انواع نہیں کہ بندہ جن کا محتاج ہو ، مثلا جس کے پاس تین ہزار دینار ہوں اور دوسرے کے پاس کھانا اور لباس اور رہائش اور تین ہزاردینار کے برابرنقدی ہو ،تواس کے پاس وہ کچھ ہے جو سب معاملات میں ان سے نفع مند ہو رہا ہے اور اور وہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس کا محتاج ہے ، اگرچہ اس کے پاس بھی اس کر برابر مال ہے ۔

اور اسی طرح اگر اس کے پاس اچھی قسم کا کھانا ہو جو کہ تین ہزار دینار کے برابر ہے تو وہ لباس اور رہائش اور دفاع کے لۓ اسلحہ اور ادویات وغیرہ کا بھی محتاج ہے جو کہ صرف کھانے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔

مجموع الفتاوی ( 17 / 137 -139) ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب