الحمد للہ.
اول:
اگر آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ آپ کمپنی سے قسطوں میں گاڑی خریدنا چاہتے ہیں کہ آپ پہلی قسط تو تقریباً 10000 ریال ادا کریں گے اس کے بعد ماہانہ اقساط دیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ قسطوں میں چیز خریدنا صحیح ہے۔ قسطوں میں چیز خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا معاہدہ ہوتے ہی گاڑی آپ کی ملکیت میں آ جائے گی، تاہم کمپنی گاڑی کو اپنے پاس رہن رکھ کر آپ کو گاڑی آگے فروخت کرنے سے روک سکتی ہے تا آں کہ آپ اس کی تمام اقساط ادا کر دیں۔
اگر یہی صورت ہے تو پھر اس کا اجارہ منتہیہ بالتملیک سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم قسطوں میں گاڑی خریدنے کی صورت ہو تو فیس کی مد میں 2800 ریال وصول کرنے کی وجہ واضح نہیں ہے۔
لیکن اگر گاڑی کی خریداری کا معاہدہ واقعی عقدِ اجارہ ہے، اور ہر ماہ 1200 ریال کرایہ بھی جمع کروانا ہے، ساتھ میں مقررہ مدت مکمل ہونے پر گاڑی کرایہ پر لینے والے کے نام لگوانے کا وعدہ بھی شامل ہو تو پھر یہ اس وقت جائز ہو گا جب عقدِ اجارہ واقعی کرایہ داری پر مشتمل ہو، در پردہ بیع نہ ہو ، در پردہ بیع نہ ہونے کی علامت یہ ہو گی کرایہ پر دی ہوئی گاڑی کی ضمانت کمپنی کے ذمہ ہو، کرایہ دار کے ذمہ نہ ہو، اسی طرح روزمرہ کے آپریشنل اخراجات کے علاوہ مرمت کے مکمل اخراجات بھی کرایہ داری مدت کے دوران کمپنی برداشت کرے، جبکہ بیع میں ایسے نہیں ہوتا؛ کیونکہ بیع میں ضمانت ، اور مرمت ساری کی ساری خریدار کے ذمے ہوتی ہے؛ کیونکہ خریدار سامان کی خریداری سے ہی مالک بن جاتا ہے۔
تاہم یہ جائز ہے کہہ عقدِ اجارہ کے ساتھ ہی الگ سے ہبہ اور تحفہ میں گاڑی دینے کا معاہدہ بھی کیا جائے کہ جب اجرت کی مکمل رقم دے دی جائے گی تو کمپنی یہ گاڑی کرایہ دار کے نام لگا دے گی۔ لہذا پہلے واضح طور پر چیز کرایہ پر لینے کا تذکرہ ہو، کہ فلاں مدت تک مقررہ کرائے کے عوض صارف اس چیز کو کرائے پر لے جا رہا ہے۔ پھر ہبہ کا معاہدہ ہو مثلاً: کہا جائے کہ: فریق اول [مثلاً: کمپنی] اور فریق ثانی [کرایہ دار] کے مابین اس بات پر معاہدہ طے پایا کہ کرایہ داری کی مدت اور اقساط پوری ادا کرنے کے بعد طریق اول گاڑی فریق ثانی کو تحفہ دے دے گا۔
اسلامی فقہ اکادمی کی طرف سے "اجارہ منتہیہ بالتملیک" کے بارے میں قرار داد جاری ہو چکی ہے، اس میں جائز اور ناجائز صورتوں کا بھی ذکر ہے ، چنانچہ اس قرار داد میں اس صورت کو جائز قرار دیا گیا ہے کہ: "عقدِ اجارہ کے ساتھ مستاجر کے لیے عقدِ ہبہ الگ سے ہو یا ہبہ کرنے کا وعدہ ہو کہ جب مکمل اجرت ادا کر دی جائے گی تو یہ چیز مستاجر کو ہبہ ہو گی" ختم شد
اس قرار داد کی مکمل تفصیل ڈاکٹر محمد حسن جیزانی کی کتاب "فقه النوازل" میں ذکر کی گئی ہے۔
لیکن اگر کمپنی کی جانب سے یہ شرط لگائی جائے کہ گاڑی کی ضمانت ، یا آپریشنل اخراجات کے علاوہ مرمت کے اخراجات بھی مستاجر کے ذمہ ہوں گے تو یہ عقد فاسد ہو گا، یہ عقدِ اجارہ حقیقی نہیں ہے، اور آپ کے لیے اس طرح لین دین کرنا جائز بھی نہیں ہو گا۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد ایڈوانس ادائیگی اور 2800 ریال بطور فیس کے متعلق مزید وضاحت کی ضرورت ہے ، لہذا اگر ایڈوانس ادا شدہ رقم اجرت میں سے منہا ہو گی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے کس مد میں وصول کیا جا رہا ہے اس کی وضاحت کرنا لازم ہے۔
جبکہ بطور فیس وصول کیے جانے والے 2800 ریال کس چیز کی فیس ہے؟ ہمیں اس کی وجہ سمجھ نہیں آ سکی۔
ہم آپ کو مشورہ دیں گے کہ آپ [معتبر شروط کے ساتھ] قسطوں میں گاڑی ، کاروں کے شو روم سے براہِ راست خرید لیں ، یا پھر آپ مرابحہ کے ذریعے گاڑی خرید لیں اس کے لیے آپ بینک الراجحی کی خدمات بھی لے سکتے ہیں، اس میں یہ ہو گا کہ بینک گاڑیوں کے شو روم سے پہلے گاڑی خریدے گا اور پھر آپ کو فروخت کرے گا۔ یہ طریقہ کار آپ کے لیے زیادہ تحفظ کا باعث ہے اور اس میں آپ کو فائدہ بھی ہو گا۔ اس میں معاہدہ ہوتے ہی آپ گاڑی کے مالک بن جائیں گے، لیکن اجارہ منتہیہ بالتملیک میں ایسا نہیں ہو گا؛ کیونکہ جب تک گاڑی کے کرایہ کا معاہدہ ہے آپ مستاجر ہی رہیں گے، اور پھر ممکن ہے کہ کمپنی آپ سے کیا ہوا تحفے کا وعدہ پورا کرے یا نہ کرے! اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ مذکورہ شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں حرام معاملے میں ملوث ہو جائیں۔
واللہ اعلم