الحمد للہ.
اگر آپ كے ليے علاوہ كسى اور شخص نے اس لڑكى كا رشتہ طلب نہيں كيا تو آپ كے ليے اس كا رشتہ طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
ليكن اگر آپ كے علاوہ كسى اور شخص نے اس سے منگنى كى ہے تو پھر آپ كے ليے اس لڑكى كا رشتہ طلب كرنا اس وقت تك جائز نہيں جب تك آپ اس شخص سے اجازت نہ لے ليں، يا پھر وہ شخص اس سے منگنى ختم كر دے، يا پھر لڑكى خود ہى اس سے رشتہ كرنے كا انكار كر دے.
امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كوئى شخص بھى اپنے بھائى كى منگنى پر منگنى نہ كرے حتى كہ اس سے قبل منگنى كرنے والا شخص اسے چھوڑ دے يا پھر اسے منگنى كرنے كى اجازت دے دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5142 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1412 ).
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں اس حديث حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
" يہ احاديث اپنے كسى مسلمان بھائى كى منگنى پر منگنى كرنے كى حرمت پر واضح حرمت كى دليل ہيں، علماء كا اتفاق ہے كہ جب رشتہ طلب كرنے والے كا رشتہ منظور كر ليا جائے اور وہ شخص اسے منگنى كى اجازت بھى نہ دے اور نہ ہى اس لڑكى كا رشتہ چھوڑے تود وسرے شخص كے ليے رشتہ طلب كرنا حرام ہے...
اور ان كا اس پر بھى اتفاق ہے كہ جب وہ شخص اس لڑكى ميں رغبت نہ ركھتے ہوئے اسے چھوڑ دے اور اسے اجازت دے دے تو منگنى پر منگنى جائز ہوگى، احاديث ميں اس كى صراحت پائى جاتى ہے " انتہى مختصرا
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى شخص جانتا ہو كہ دوسرا شخص اس لڑكى سے منگنى كرنا چاہتا ہے تو كيا وہ خود اس كا رشتہ طلب كر سكتا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر اس شخص نے ابھى اس كے خاندان والوں سے رشتہ طلب نہيں كيا تو دوسرے شخص كے ليے اس لڑكى كا رشتہ طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں وہ اس سے پہلے رشتہ طلب كر سكتا ہے.
ليكن اگر اس نے رشتہ طلب كر ليا ہے تو پھر اس سے جائز نہيں كہ پہلے كى منگنى ہو اور دوسرا شخص رشتہ طلب كرے ليكن اگر پہلے شخص كو انكار كر ديا گيا ہو يا پھر وہ شخص اجازت دے دے يا اسے چھوڑ دے ( يعنى جب انكار كر ديا گيا ہو ) عورت كے گھر والوں نے اسے انكار كر ديا ہو ( يا اجازت دے دے ) جو شخص اس لڑكى كا رشتہ لينا چاہتا ہے وہ پہلے شخص كے پاس جائے اور اس سے جا كر كہے: مجھے پتہ چلا ہے كہ تم فلان لڑكى سے منگنى كرنا چاہتے ہو آپ سے گزارش ہے كہ آپ اس كا رشتہ طلب نہ كريں بلكہ ميرے ليے چھوڑ ديں
( يا پھر چھوڑ دے ) يعنى اسے پتہ چل جائے كہ اس نے كسى دوسرى عورت سے شادى كر لى ہے اور اس كا رشتہ نہيں لينا چاہتا؛ كيونكہ كچھ لوگ اپنے رشتہ داروں سے كسى لڑكى كا رشتہ طلب كرتے ہيں ليكن انہيں جلد جواب نہيں ديا جاتا تو وہ كسى دوسرى عورت سے شادى كر ليتے ہيں.
اس ليے اگر علم ہو جائے كہ اس شخص نے اپنے ليے رشتہ طلب كرنے والى عورت كو چھوڑ ديا ہے تو كسى دوسرے شخص كے ليے اس عورت سے منگنى كرنے كا حق حاصل ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.
واللہ اعلم .