الحمد للہ.
اول:
اولاد اللہ تعالى كا عطيہ اور ہبہ ہے، جو اللہ تعالى كى جانب سے والدين كے ليے انعام ہيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اولاد كے بہت سارے عظيم حقوق واجب كيے ہيں، جن ميں سے سے پہلا اور ابتدائى حق بچے كا بہتر اور اچھا معنى ركھنے والا نام ہے جس سے بچے نے مستقل ميں موسوم ہونا ہے.
المارودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب بچہ پيدا ہو تو اس كى سب سے پہلى عزت و تكريم اور اس كے ساتھ نيكى يہ ہے كہ اس كا اچھا اور بہتر سا نام ركھا جائے، كيونكہ اچھے اور بہتر نام كا سنتے ہى دل ميں مقام پيدا ہوتا ہے " انتہى مختصرا.
ديكھيں: نصيحۃ الملوك صفحہ نمبر ( 167 ).
دوم:
ذيل ميں چند ايك اشياء كى راہنمائى كى جاتى جنہيں نام ركھنے سے قبل ديكھنا ضرورى ہے:
1 - يہ مستحب نہيں كہ سب صحابہ كرام اور يا صحابيات كے نام ركھے جائيں، كيونكہ ان ميں سے كچھ نام تو معاشرے ميں معروف و مقبول ہونگے، ليكن وہ كسى دوسرے معاشرے ميں عجيب و غريب.
الماوردى رحمہ اللہ نے اپنى سابقہ كلام ميں كچھ ذكر كيا ہے جو ناموں ميں مستحب ہے، جس ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
اس نام كا معنى اچھا ہو، اور جس كا نام ركھا جا رہا ہے اس كى حالت كے مطابق ہو، اور اس كے خاندان و طبقہ اور اہل مرتبہ ميں وہ نام ركھا جاتا ہو " انتہى.
اس ليے والدين كو اپنے بچے كے ليے كوئى اچھا سا نام اختيار كرنا چاہيے، نہ تو وہ نام شاذ ہو اور نہ ہى اس معاشرہ ميں عجيب و غريب ہو جس ميں وہ رہتے ہيں، كيونكہ بعض اوقات عجيب و غريب نام مذاق كا باعث بن جاتا ہے، اور لوگوں كے سامنے اس كا نام ذكر كرنے سے وہ شرمانے لگتا ہے.
اس ليے جو شخص انبياء اور صحابہ كرام اور نيك لوگوں كے نام اختيار كرنا چاہتا ہے تو وہ ايسا نام اختيار كرے جو اس كے اور اس كے معاشرے اور اس كى قوم كے مناسب ہو.
2 - غير عرب لوگوں كے ليے عربى نام ركھنے لازم نہيں، بلكہ واجب يہ ہے كہ وہ ايسے ناموں سے اجتناب كريں جو دوسرے اديان كے لوگ نام ركھتے ہيں، اور ايسے نام جو دوسرے دين والوں كے ہاں استعمال زيادہ ہے، مثلا: جرجيس، پٹرس، يوحنا، متى وغيرہ، ايسے نام مسلمانوں كو نہيں ركھنے چاہييں؛ كيونكہ اس ميں عيسائيوں سے مشابہت ہوتى ہے اور يہ نام ان كے ساتھ مخصوص ہيں "
ماخوذ از: احكام الذمۃ تاليف ابن قيم ( 3 / 251 ).
ليكن اگر نام غير عربى ہو اور اس كا معنى اچھا ہو تو اسے اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، انبياء و رسول اپنے اور اپنى اولاد كے نام اچھے ركھا كرتے تھے، اور وہ يہ نام اپنے عرف اور معاشرے سے ليا كرتے تھے، اور اس ميں وہ عربى كا التزام نہيں كرتے تھے، ان ناموں ميں اسرائيل، اسحاق، موسى، اور ھارون شامل ہيں.
3 - قبيح اور برے ناموں، يا ايسے ناموں سے اجتناب كرنا چاہيے جن ميں تزكيہ ہو.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام طبرى رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے:
" برے اور قبيح معنى والا نام نہيں ركھنا چاہيے، اور نہ ہى ايسا نام جس سے تزكيہ ہوتا ہو، اور نہ ہى ايسا نام ركھيں جس كا معنى كوئى گالى ہو، چاہے يہ نام ہى ہوں، بلكہ يہ تو اشخاص كى علامات ہوتى ہيں، اور اس سے حقيقى صفت مقصود نہيں، ليكن اس كے مكروہ ہونے كى وجہ يہ ہے كہ سننے والا اس نام كو سنے تو ہو سكتا ہے وہ گمان كرے كہ يہ مسمى كى صفت ہے، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسے نام كو تبديل كر ديا كرتے تھے كہ اگر اس نام سے اسے بلايا اور پكارا جائے تو وہ سچا ہو " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 577 ).
اور بچيوں كے وہ نام جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پسند نہيں كيے اور ان كا انكار كيا ہے ان ميں عاصيہ بھى شامل ہے اسے آپ نے جميلہ كے نام سے تبديل كر ديا.
ديكھيں: صحيح مسلم حديث نمبر ( 2139 ).
اور بعض مسلمان ملكوں ميں جو مكروہ اور غلط نام مشہور ہيں جو لفظ " الدين " يا " الاسلام " كى جانب منسوب ہيں، مثلا نور دين، يا عماد الدين، يا نور الاسلام وغيرہ تو اہل علم نے ايسے نام مرد و عورت كے ليے مكروہ اور ناپسند كيے ہيں، كيونكہ اس ميں نام والے كا بہت زيادہ عظيم تزكيہ پايا جاتا ہے.
الشيخ بكر ابو زيد حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ان دونوں لفظوں ( دين ) اور ( اسلام ) كے عظيم مقام اور مرتبہ كى بنا پر ہے، چنانچہ بطور نام ان كى طرف نسبت كرنے ميں ايسا لمبا دعوى ہے جو جھوٹ پر جھانك رہا ہے، اس ليے بعض علماء كرام نے اس كى حرمت بيان كي ہے، اور اكثر اسے مكروہ قرار ديتے ہيں؛ كيونكہ اس ميں ايسا بھى جو غير صحيح معنى كا وہم پيدا كرتا ہے جس كا اطلاق جائز نہيں، ابتدا ميں تو يہ نام نہيں تھے بلكہ لقب تھا، پھر اسے نام كى جگہ استعمال كيا جانے لگا " انتہى.
ديكھيں: تسميۃ المولود صفحہ نمبر ( 22 ).
4 - اور بچيوں كے نام ميں ايسے ناموں سے اجتناب كرنا چاہيے جس ميں شہوت كا معنى پايا جاتا ہو، يا پھر فتنہ و فساد كا، اور اسى طرح ناھد يا ناھدہ ( اس كا معنى اونچے اور بڑے پستانوں والى ہے ).
اسى طرح بچيوں كے نام فرشتوں كے ناموں پر نہيں ركھنے چاہئيں، كيونكہ اس ميں مشركوں كے اس گمان كى مشابہت ہوتى ہے كہ فرشتے اللہ كى بيٹياں ہيں.
شيخ بكر ابو زيد كہتے ہيں:
" فرشتوں كے نام پر بچيوں كے نام ركھنا ظاہرا حرام ہے؛ كيونكہ اس ميں فرشتوں كو اللہ كى بيٹياں قرار دينے ميں برابرى ہوتى ہے، اللہ تعالى ان كے اس قول سے بلند و بالا ہے، اور اس كے قريب ہى ـ يعنى حرام ہونے ميں ـ بچى كا نام " ملاك، يا ملكہ " ركھنا بھى ہے " انتہى.
ديكھيں: تسميۃ المولود ( 24 ).
سوم:
تجويز كنندہ مباح نام بہت سارے ہيں، جن كا شمار تو ممكن نہيں، ليكن اس ميں سے كچھ ذيل ميں ذكر كيے جاتے ہيں:
آمنۃ: اس كا معنى مطمئن رہنے اور نہ ڈرنے والى ہے.
شيماء: بہت فضائل و خصلت والى.
اروى: الوعل كى مؤنث ہے. جس كا معنى خوبصورت و ديدہ زيب ہے.
عائشہ: شرم و حياء والى.
اسماء: وسامہ سے مشتق ہے، اور ايك قول ہے كہ يہ سمو يعنى بلندى سے مشتق ہے.
ريم: بالكل سفيد ہرنى.
عاليۃ: رفعت و بلندى سے ماخوذ.
جويريۃ: جاريۃ كى تصغير ہے، اور يہ امہات المومنين ميں سے بھى ايك كا نام تھا.
رحمۃ: رحم و شفقت.
بسمۃ: دونوں ہونٹوں ميں خلا، جو خوشى كى تعبير ہے.
رزان: عورتوں ميں سے وقار والى.
عفاف: عفت و طہارت.
زينب: بہترين خوشبو والا درخت.
سارۃ: دل ميں سرور بھرنے والى.
ميمونۃ: مبارك و بابركت عورت.
رانيۃ: لمبى نظر والى اور آنكھيں نہ جھپكنے والى.
سعاد: توفيق، بركت، بدبدختى كى ضد.
مريم: عبرانى نام جس كا معنى بلند يا سمند كى سردار.
سلمى: نرم و نازك پوروں اور پہلو والى، اور سلامتى سے بھى.
نورۃ: روشنى كا گولا.
سميۃ: سماء كى تصغير جس كا معنى بلند اور رفيع الشان والى.
ھاجر: اچھى خوبصورت، اور دوسروں پر درجہ ركھنے والى.
واللہ اعلم .