سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نوروز كا جشن منانا

سوال

اللہ تعالى آپ كو بركت دے يہ ويب سائٹ بہت اچھى ہے ميں يہ دريافت كرنا چاہتا ہوں كہ آيا نوروز كا جشن منانا حرام ہے يا نہيں، كيونكہ ميں ايك فارسى ہونے كے ناطے يہ جشن مناتا ہوں، ہم نوروز ميں كھانا تيار كرتے ہيں اور اس پر قرآن ركھتے ہيں آيا يہ جشن نوروز حرام ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

النيروز معرب كلمہ ہے يعنى يہ عربى كلمہ نہيں بلكہ دوسرى زبان سے ليا گيا ہے، اور يہ فارسى زبان كا كلمہ ہے جو نوروز سے ماخوذ ہے جس كا معنى نيا دن ہے، اور يہ فارسيوں كے تہواروں ميں سے ايك تہوار اور جشن ہے، بلكہ يہ ان كے عظيم جشن ميں شامل ہوتا ہے، كہا جاتا ہے كہ اس جشن كو سب سے پہلے منانے والا شخص فارسيوں كے قديم بادشاہوں ميں" جمشيد " نامى شخص ہے اور اسے " جمشاد " ميں كہا جاتا ہے.

اور نوروز فارسى سال كا پہلا دن كہلاتا ہے اور يہ جشن اس پہلے دن كے بعد پانچ ايام تك چلتا ہے.

مصر كے قبطى نوروز كا جشن مناتے رہے ہيں اور يہ ان كا پہلا طريقہ ہے، جو عيد شم النسيم كے نام سے معروف ہے.

امام ذھبى رحمہ اللہ اپنے رسالہ " الخسيس باھل الخميس " ميں لكھتے ہيں:

" رہا نوروز كا مسئلہ تو اہل مصر اس كو منانے ميں مبالغہ كيا جاتا ہے وہ اس جشن كو مناتے ہيں، اور يہ دن قبطيوں كے سال كا پہلا دن ہے، وہ اسے تہوار اور عيد مناتے ہيں جس ميں مسلمانوں نے ان كے ساتھ مشابہت كرتے ہيں " انتہى

منقول از: مجلۃ الجامعۃ الاسلاميۃ عدد نمبر ( 103 - 104 ).

دوم:

مسلمانوں كے ليے تو صرف دو عيديں اور تہوار ہيں جنہيں بطور تہوار منانا جائز ہے، ايك تو عيد الفطر اور دوسرى عيد الاضحى اس كے علاوہ جتنے تہوار اور عيديں ہيں وہ سب اپنى جانب سے ايجاد كردہ بدعات ميں ميں شامل ہوتى ہيں ان كا منانا جائز نہيں.

سنن ابو داود اور سنن نسائى ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو اہل مدينہ كے دو تہوار تھے جس ميں وہ كھيلا كرتے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ دو تہوار اور دن كيسے ہيں ؟

وہ كہنے لگے: ہم دور جاہليت ميں ان دو دنوں ميں كھيلا كرتے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان دو دنوں ميں بدلے تمہيں اچھے اور بہتر دو دن ديے ہيں وہ عيد الاضحى اور عيد الفطر كے دن ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1134 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1556 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2021 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے نوروز، اور عيد الام يعنى مدر ڈے، اور جشن آزادى وغيرہ سب دوسرے تہوار نئے ايجاد كردہ تہواروں اور بدعات ميں شامل ہوتے ہيں، اور پھر جب اصل تہوار كفار كا ہو مثلا نوروز كا جشن تو پھر اس تہوار اور جشن كا معاملہ تو اور بھى زيادہ شديد ہو گا.

نوروز كا جشن جاہليت كا تہوار ہے، جو اسلام سے قبل فارسى لوگ منايا كرتے تھے، اور اسے نصارى بھى مناتے ہيں، اس ليے اس جشن كو منانا اور بھى تاكيدى ممنوع ہو جاتا ہے كيونكہ اس ميں كفار كے ساتھ مشابہت پائى جاتى ہے.

امام ذھبى رحمہ اللہ اپنے رسالہ " التمسك بالسنن و التحذير من البدع " ميں لكھتے ہيں:

" رہى عيد ميلاد اور جمعرات اور نوروز كے جشن ميں اہل ذمہ ( كفار يہود و نصارى ) كى مشابہت كرنا فحش بدعت ہے اور اگر كوئى مسلمان اسے دين سمجھ كر مناتا ہے تو جاہل كو تعليم دى جائيگى اور اس سے روكا جائيگا، اور اگر وہ اسے ( اہل ذمہ سے ) محبت اور ان كے تہواروں كو اچھا سمجھتے ہوئے منائے تو بھى قابل مذمت ہے، اور اگر وہ يہ جشن عادت و كھيل كے ليے اور اپنے اہل و عيال كو خوش كرنے اور اپنے بچوں كو منانے كے ليے جشن منائے تو بھى يہ بات محل نظر ہے، اور اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور جاہل شخص كو معذور سمجھا جائيگا اور اس كے سامنے نرمى كے ساتھ وضاحت كى جائيگى اور اس كى بدعت كو بيان كيا جائيگا " واللہ اعلم انتہى

منقول از: مجلۃ الجامعۃ الاسلاميۃ عدد نمبر ( 103 - 104 ).

اور جمعرات عيسائى و نصارى كا تہوار ہے جسے وہ الخميس الكبير يعنى بڑى جمعرات كا نام ديتے ہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" كفار كے تہواروں ميں كفار كى مشابہت كرنا:

كفار كے تہواروں ميں كفار كى مشابہت كرتے ہوئے يہ تہوار منانا جائز نہيں، كيونكہ حديث ميں وارد ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم كى مشابہت كى تو وہ اسى ميں سے ہے "

اس سے مراد مسلمانوں كو ہر اس معاملہ ميں مشابہت كرنے سے نفرت دلانا ہے جو كفار كے ساتھ مخصوص ہوں "

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ كہتے ہيں:

" جو كوئى بھى عجميوں كے ملك سے گزرا اور ان كا نوروز اور مہرجان تہوار منايا اور ان كے ساتھ مشابہت اختيار كى اور وہ اسى حالت ميں مر جائے تو روز قيامت ان كے ساتھ ہى اٹھايا جائيگا "

اور اس ليے بھى كہ تہوار اور عيديں من جملہ شرع اور مناہج و مناسك ميں شامل ہوتى ہيں جس كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ہم نے ہر امت كے ليے عبادت كا ايك طريقہ مقرر كيا ہے جسے وہ بجا لانے والے ہيں .

مثلا قبلہ اور نماز و روزہ لہذا ان كے تہواروں اور باقى عبادات ميں مشاركت كے مابين كوئى فرق نہيں كيونكہ سارے تہوار ميں موافقت كرنا ان كے ساتھ كفر ميں موافقت ہے، اور اس كى بعض فروعات ميں موافقت كرنا كفر كى بعض شاخوں ميں موافقت ہو گى، بلكہ تہوار ہى وہ خاص چيز ہے جس سے شريعت كى امتياز ہوتى ہے، اور زيادہ ظاہر وہ جس كے شعائر و علامات ہوں، اس ليے تہوار ميں موافقت كا معنى يہ ہوا كہ كفر كے خاص شعار اور زيادہ ظاہر شعار ميں موافقت ہو گى.

قاضى خان كہتے ہيں:

ايك شخص نے نوروز كے دن كوئى ايسى چيز خريدى جسے وہ اس دن كے علاوہ كبھى نہ خريدے: اگر تو وہ اس سے اس دن كى تعيظم كرنا چاہتا ہو جس طرح كافر تعظيم كرتے ہيں تو يہ كفر ہو گا، اور اگر اس نے يہ فضول خرچى و اسراف كى بنا پر خريدى نہ كہ اس دن كى تعيظيم كى خاطر تو يہ كفر نہيں ہو گا اور اگر اس نے كسى انسان كو نوروز كے دن كوئى تحفہ ديا اور اس سے اس دن كى تعظيم مراد نہ ہو بلكہ لوگوں كى عادت كى بنا پر ايسا كيا تو يہ كفر نہيں ہو گا، اسے چاہيے كہ وہ اس دن ايسا نہ كرے جو اس دن كے علاوہ نہ تو اس سے قبل اور نہ ہى بعد ميں كيا جاتا ہے، اور اسے كفار كے ساتھ مشابہت سے احتراز كرنا چاہيے.

اور ( مالكيہ ميں سے ) ابن قاسم نے مكروہ قرار ديا ہے كہ مسلمان كسى نصرانى شخص كو كفار كے تہوار كے موقع پر كوئى تحفہ دے، اور وہ ايسا كرنے كو اس كے تہوار كى تعظيم اور اس كے كفر پر معاونت شمار كرتے ہيں.

اور اسى طرح كفار كے تہواروں ميں ان كى مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں اس ميں مشابہت كرنے والے مسلمان شخص كى معاونت نہيں كى جائيگى بلكہ اسے ايسا كرنے سے منع كيا جائيگا، اور اگر كسى شخص نے عادت سے ہٹ كر ان كے تہواروں ميں دعوت كى تو اس كى دعوت قبول نہيں كى جائيگى اور كسى مسلمان نے ان تہواروں كے موقع پر كسى كو عادت سے ہٹ كر ہديہ ديا تو اس كا يہ ہديہ بھى قبول نہيں كيا جائيگا خاص كر اگر وہ ہديہ ايسا ہو جس سے اس مشابہت كے ساتھ معاونت ہوتى ہو، مثلا ميلاد كے تہوار پر مشعل اور موم بتى دينا، كفار كے تہواروں ميں مشابہت كرنے والے مسلمان كو سزا دينا ضرورى ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 12 / 7 ).

شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" بدعتيوں كے تہوار مثلا عيسائيوں كى عيد ميلاد كرسمس اور نوروز اور مہرجان وغيرہ تہوار منانے جائز نہيں اور اسى طرح وہ تہوار جو مسلمانوں نے نئے ايجاد كر ليے ہيں مثلا ربيع الاول ميں عيد ميلاد النبى اور رجب ميں معراج النبى وغيرہ كا جشن منانا جائز نہيں.

اور مشركوں يا عيسائيوں نے اپنے تہواروں ميں جو كھانے تيار كيے ہوں انہيں كھانا جائز نہيں، اور ان تہواروں كے موقع پر ان كى جانب سے دعوت قبول كرنا بھى جائز نہيں، اس ليے كہ ان كى دعوت قبول كرنا ان كو اس تہوار اور بدعت كى داد دينے اور اس كا اقرار كرنے كے مترادف ہے، تو اس طرح جاہل قسم كے لوگوں كے دھوكے كا سبب ہو گا، اور وہ يہ اعتقاد ركھنا شروع كر دينگے كہ يہ تہوار منانے ميں كوئى حرج نہيں " واللہ اعلم انتہى

ماخوذ از: كتاب اللؤلؤ المكين من فتاوى ابن جبرين ( 27 ).

حاصل يہ ہوا كہ: مسلمانوں كے ليے نوروز كا تہوار منانا جائز نہيں اور نہ ہى اس روز كو ہديہ و تحفہ وغيرہ دينے اور كھانا تيار كرنے كے ليے مخصوص كرنا جائز ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب