سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جب بيوى خاوند كو پسند نہ كرتى ہو اور مرد كے ساتھ اسے راحت نہ ملے تو كيا كرے

سوال

جب عورت اپنے خاوند كے ساتھ رہنے ميں راحت نہ پائے نہ تو اسے پسند كرتى ہو اور نہ ہى اس كے ساتھ زندگى بسر كرنے ميں سعادت محسوس كرے تو عورت كو كيا كرنا چاہيے، كيا اس كے ليے اس سے طلاق طلب كرنا واجب ہو جاتا ہے يا كيا كرنا ضرورى ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى نے تو شادى كو سكون و راحت اور مودت ومحبت كا سبب بنايا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر اسے بطور احسان ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

اور اس كى نشانيوں

اور اس كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے تمہارى بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان كے ساتھ راحت و سكون پاؤ، اور اس نے تمہارے درميان محبت و مودت پيدا كر دى، يقينا اس ميں غور و فكر كرنے والوں كے ليے نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

اس ليے اگر خاوند اور بيوى كے مابين موافقت نہ ہو سكے اور عورت كو خاوند كے ساتھ رہتے ہوئے سعادت و خوشى حاصل نہ كر سكے اور اسے راحت نہ ہوتى ہو تواسے اس كے اسباب تلاش كر كے اس كاعلاج كرنا چاہيے كيونكہ ہو سكتا ہے عورت كى اپنى طرف سے كوتاہى ہو، اور ہو سكتا ہے اس كا علاج بھى ممكن ہو.

اور جب خاوند اور بيوى دونوں بات چيت كے ذريعہ اس كا حل تلاش كرنے كى كوشش كريں تو يہ زيادہ بہتر ہے اور حل كے زيادہ قريب ہے.

صرف خاوند اور بيوى كے مابين جھگڑا ہونے كى بنا پر ہى بيوى كے ليے طلاق طلب كرنے كا حق نہيں، يا پھر يہ نہيں كہہ سكتى كہ جسے وہ خاوند سے بہتر سمجھتى ہو سے شادى كا مطالبہ كرنے لگے، كيونكہ اصل ميں طلاق كا مطالبہ كرنا حرام ہے اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الباس: كا معنى شدت و تنگى اور ايسا سبب جس كى بنا پر طلاق طلب كى جا سكتى ہو.

ليكن اگر بيوى خاوند كو شكل كى بنا پر ناپسند كرتى ہو يا پھر سوء معاشرت يعنى برا سلوك كرنے كى وجہ سے اور خاوند كے ساتھ رہنے كى سكت نہ ركھتى ہو تو اس كے ليے اس صورت ميں طلاق طلب كرنا جائز ہے، كيونكہ اس حالت ميں خاوند كے ساتھ رہنے ميں كوئى مصلحت نہيں، اور ہو سكتا ہے اس وجہ سے وہ خاوند كے حق ميں كوتاہى كى مرتكب ہو كر گنہگار ہو جائے.

صحيح بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو اخلاق ميں كوئى عيب لگاتى ہوں، اور نہ ہى اس كے دين، ليكن ميں اسلام ميں ناشكرى اور كفر كو پسند نہيں كرتى.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم اسے اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟

وہ كہنے لگى: جى ہاں ميں واپس كرتى ہوں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4867 ).

ثابت بن قيس كى بيوى كا يہ كہنا:

" ليكن ميں اسلام ميں كفر و ناشكرى كو ناپسند كرتى ہوں"

يعنى ميں يہ پسند نہيں كرتى كہ كوئى ايسا عمل كر بيٹھوں جو اسلامى احكام كے منافى ہو يعنى خاوند كى نافرمانى ہو جائے، يا پھر خاوند سے بغض ركھوں يا اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كر سكوں.

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 400 ).

تو يہ عورت يعنى ثابت بن قيس كى بيوى كو خدشہ تھا كہ وہ اپنے خاوند كو ناپسند كرنے كى بنا پر خاوند كے ساتھ رہے گى تو ہو سكتا ہے وہ اس كے حقوق ميں كمى و كوتاہى كى مرتكب ہو جائے، اور اس طرح نافرمانى كى مرتكب ہو كر گنہگار نہ ٹھرے، اس ليے اس نے ازدواجى تعلقات ختم كرنے كا مطالبہ كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اس كى موافقت كى.

ازدواجى تعلقات خاوند كى جانب سے طلاق كى صورت ميں بھى ختم ہو سكتے ہيں، يا پھر خلع كے ساتھ، يعنى عورت اپنے سارے مہر يا اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو جائے يعنى جس طرح خاوند اور بيوى كا اتفاق ہو جائے تو پھر خاوند اسے ايك طلاق دے دے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب