سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

والد کا لڑکی کومن پسند شخص سے شادی نہ کرنے دینے کا حکم کیا ہے

10196

تاریخ اشاعت : 15-02-2008

مشاہدات : 12340

سوال

بعض ولی لڑکی کو اپنے کفو شخص سے شادی نہیں کرنے دیتے اس کا حکم کیا ہے اورلڑکیوں کا اس بارہ میں کیا موقف ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


یہ سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا تو ان کا جواب تھا :

یہ مسئلہ بہت ہی عظیم ہے اوربہت بڑی مشکل ہے ، اللہ تعالی بچائے بعض مرد تواللہ تعالی کی خیانت کرتے ہیں اوراپنی امانتوں کی بھی خیانت کرتے اوراپنی لڑکیوں پر ظلم کرتے ہیں ، ولی کے ذمہ واجب تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے والے اعمال کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا توفرمان ہے :

اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں کی شادی کردو

اوراپنے نیک اورصالح غلاموں اورلونڈیوں کی بھی شادی کردو ۔

یعنی تمہارے جو غلام اورلونڈیاں نیک و صالح ہيں ان کی بھی شادیاں کردو ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کا دین اوراخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے ( اپنی بیٹی ) کی شادی کردو اگرایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت وسیع وعریض فتنہ کھڑا ہوجائے گا ) ۔

لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرات کرے کہ جب اس کا والداسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اوراخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا شکایت کرے ، اورقاضی اس کےوالد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کردو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی ولی کردے گا ۔

اس لیے کہ لڑکی کو حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد اسے شادی نہ کرنے دے ( تو وہ قاضی سے شکایت کردے ) اوریہ اس کا شرعی حق ہے کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں ، لیکن اکثر لڑکیاں شرم وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں ۔

والد کونصیحت ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورخوف کرتے ہوئے بیٹی کو شادی سے نہ روکے اورخود بھی تنگ ہو اوردوسروں کو بھی تنگ کرے ، وہ اس معاملہ میں اپنے آپ سے موازنہ کرے : کہ اگر اسے شادی کرنے سے روک دیا جائے تواس کے دل وجان پر کیا گزرے گی ؟

جس بیٹی کو وہ شادی کرنے سے روک رہا ہے روزقیامت وہ اس کے خلاف دعوی دائر کرے گی جس دن کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

جس دن مرد اپنے بھائي ، اوراپنی والدہ ، اوراپنے والد ، اوراپنی بیوی ، اوراپنے بیٹوں سے بھی دور بھاگے گا اورہر ایک شخص کے لیے اس دن اسے ایسی فکر دامن گیر ہوگی جواس کے لیے کافی ہوگی ۔

اس لیے لڑکیوں کے ولیوں چاہے وہ والدین ہوں یا بھائي وغیرہ کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورخوف کرتےہوئے انہیں شادی کرنے سے نہ روکیں ، ان کا حق ہے کہ جس کا دین اوراخلاق اچھا ہو اس سے شادی کردیں ۔

ہاں یہ ہے کہ اگر لڑکی ایسا لڑکا اختیار کرے جو دینی اوراخلاقی طور پر بہتر نہیں تو پھر ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس سے شادی نہ کرنے دے اورمنع کردے ، لیکن اگر لڑکی دینی اوراخلاق لحاظ سے اچھے شخص کو اختیار کرتی ہے اورپھر اس کا ولی صرف اپنے نفس کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے اس سے شادی نہیں کرنے دیتا ۔

اللہ کی قسم یہ حرام ہے اورپھر حرام ہی نہیں بلکہ خیانت اورگناہ بھی ہے ، ایسا کرنے جو بھی فساد اورفتنہ پیدا ہو گا وہ اس کا ذمہ دار ہے اور اس کا گناہ بھی اس پر ہوگا ۔ .

ماخذ: شیخ محمد بن صالح العثیمیمن رحمہ اللہ تعالی سے ماہانہ ملاقات ۔