الحمد للہ.
وضو کرتے ہوئے وضو کے تمام اعضا کو مکمل دھونا لازم ہے، تھوڑی سی بھی جگہ نہ چھوڑے، اور اگر پاؤں پر کوئی ایسی چیز لگی ہوئی ہے جو جلد تک پانی پہنچنے کے لیے رکاوٹ ہے تو اسے ہٹانا لازم ہے، وضو کا عضو تبھی دھلے گا جب اس رکاوٹ کو دور کریں گے۔
اس کی دلیل مسند احمد: (3/424) اور ابو داود: (175) میں خالد بن معدان سے مروی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، اور اس کے پاؤں کی پشت پر درہم کے برابر خشکی تھی جسے پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے وضو اور نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔) امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کی سند جید ہے۔ نیز البانیؒ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ہاتھ پر لگی ہوئی چکنائی کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس طرح وضو صحیح ہو گا؟
تو انہوں نے جواب دیا: "ہاں، اس کا وضو اس شرط پر صحیح ہو گا کہ چکنائی جمی ہوئی نہ ہو کہ جس کی وجہ سے جلد تک پانی نہ پہنچے، چنانچہ اگر چکنائی جمی ہوئی ہو جس سے پانی جلد تک نہ پہنچے تو وضو سے قبل اسے زائل کرنا لازم ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (11/147)
مسلمان کو اپنی عبادت اور طہارت کا خیال رکھنا چاہیے اور کام کے دوران اپنے قدموں پر ایسی کوئی چیز پہن لے جس سے وہ کسی بھی ایسی چیز سے بچ سکے جو پانی کے لیے رکاوٹ بنے، یا پھر اپنے ساتھ کوئی ایسی شے رکھے جس سے یہ رکاوٹ بننے والی چیز زائل ہو جائے۔
واللہ اعلم