جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

ٹيشو پيپر كے ساتھ استنجاء پر اكتفا كرنے كا جواز

10257

تاریخ اشاعت : 23-02-2007

مشاہدات : 7270

سوال

جى ہاں مجھے معلوم ہے قضائے حاجت كا صحيح طريقہ يہ ہے كہ بيٹھ كر قضائے حاجت اور پيشاب كيا جائے، ليكن ميرے ايك دوست نے مجھے كہا كہ اس كے خيال ميں ہميں قضائے حاجت كے بعد دبر كو پانى كے ساتھ دھونا چاہيے نہ كہ صرف ٹشو پيپر كے ساتھ.
قضائے حاجت كے بعد ميں دبر صاف كرنے كے ليے ٹشو پيپر كے علاوہ كوئى اور چيز استعمال نہيں كرتا اور بعد ميں ہاتھ دھو ليتا ہوں، تو كيا كوئى ايسا اسلامى حكم ملتا ہے جس ميں ہميں دبر صاف كرنے كے ليے پانى استعمال كرنا لازم ہو ؟
مجھے اميد ہے كہ ايسا كوئى حكم نہيں ہوگا، كيونكہ يہ معاملہ مشكل ہے اور يہ پريشانى ڈسٹرب كرنے كا باعث ہے، ميں ہر بار پانى استعمال كرنے كى كوشش كرتا ہوں ليكن ميرے ارد گرد جگہ ميں پانى گر جاتا ہے. ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مؤمن شخص پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ماننا اور اس كے سامنے سر تسليم خم كرنا واجب ہے، چاہے وہ حكم اس كى خواہش اور ذہن كے خلاف بھى جاتا ہو.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور كسى بھى مؤمن مرد اور عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا وہ واضح اور كھلى گمراہى ميں جا پڑا الاحزاب ( 36 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس ليے بلايا جاتا ہے كہ اللہ اور كا رسول ان ميں فيصلہ كردے تو وہ كہتے ہيں ہم نے سنا اور مان ليا يہى لوگ كامياب ہونے والے ہيں، اور جو بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى فرمانبردارى كرے اور اللہ تعالى كا خوف ركھے اور اس كے عذابوں سے ڈرتے رہيں يہى نجات پانے والے ہيں النور ( 51 - 52 ).

اور جب مومن شخص اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم تسليم كرتے ہوئےاس كے سامنے سر تسليم خم كر دے تو اس راستے ميں جو بھى مشقت آئيگى اس كو اس كا اجروثواب حاصل ہوگا، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ عنہا كو فرمايا تھا:

" تيرا اجر تيرے خرچ كرنے اور تيرى تھكاوت كے مطابق ہوگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1787 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1211 ).

رہا اس مسئلہ كا حكم تو وہ درج ذيل ہے:

قضائے حاجت كے بعد نجاست صاف كرنے كے ليے پانى كا استعمال واجب نہيں، بلكہ يہ نجاست پتھر اور مٹى كے ڈھيلے يا ٹشو پيپر وغيرہ وہ اشياء جن سے نجاست زائل ہو سكے استعمال كر كے بھى زائل كرنى جائز ہے اور اس كى دليل مسند احمد كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى شخص قضائے حاجت كے ليے جائے تو وہ اپنے ساتھ تين پتھر لے كر جائے، اور ان سے صفائى كرے يہ اس كے ليے كافى ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 23627 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 44 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ صرف پتھروں پر ہى اكتفا كرنا جائز ہے، اور يہ كہ پانى كا استعمال واجب نہيں.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 208 ).

پتھر يا ٹشو پيپر پر اكتفا كرنے كے جواز كے باوجود پانى استعمال كرنا افضل اور بہتر ہے، اس كى دليل صحيح بخارى اور صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قضائے حاجت كے جاتے تو ميں اور ايك ميرا جيسا بچہ پانى كا برتن اٹھا كر لے جاتے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم استنجاء فرماتے "

اداوۃ چمڑے كے برتن كو كہتے ہيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 150 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 271)

امام ترمذى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ عائشہ رضى اللہ عنہا نے عورتوں كو كہا:

" تم اپنے خاوندوں كو كہو كہ وہ پانى سے استنجاء كيا كريں، ميں ان سے شرماتى ہوں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا كيا كرتے تھے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 19 ) امام نووى رحمہ اللہ نے المجموع ( 2 / 101 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ اس حديث كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

اہل علم كے ہاں اسى پر عمل ہے، ان كا اختيار يہى ہے كہ اگرچہ پتھروں كے ساتھ استنجاء كرنا كافى اور جائز ہے، ليكن ان كے ہاں پانى كے ساتھ ہى استنجاء كرنا افضل اور بہتر ہے . اھـ

اور اگر ٹشو پيپر استعمال كر كے پانى استعمال كيا جائے يعنى دونوں ہى كام كيے جائيں تو يہ اكمل اورافضل اور سب سے بہتر اور نور على نور ہے، لہذا پہلے ٹشو پيپر استعمال كريں اور بعد ميں پانى.

ديكھيں: المجموع للنوى ( 2 / 100 ).

واللہ اعلم اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد