الحمد للہ.
ہمارے سائل بھائى: آپ كو دعا كى دونوں قسموں ميں ضرور فرق كرنا چاہيے:
پہلى قسم:
مقيد دعا: يعنى وہ دعا جو كسى وقت يا جگہ يا عبادت كے ساتھ مربوط ہو، يا پھر جس كو شريعت نے تعداد يا فضيلت كے ساتھ مقيد كيا ہو، يا اور كوئى قيد لگائى ہو مثلا وہ دعائيں جو نماز كى ابتدا ميں پڑھى جاتى ہيں، اور اسى طرح صبح و شام كے وقت كى دعائيں اور سوتے وقت كى دعائيں، اور كھانے كى دعائيں.
دعا كى اس قسم ميں تو ہميں اس كا اہتمام كرنا ہو گى جسے شريعت نے مقيد كيا ہے، اس ميں كسى بھى قسم كى كمى يا زيادتى نہيں كى جا سكتى، اور كوئى اور دعا كى ايجاد نہيں كى جا سكتى كہ وہ سنت ميں ثابت شدہ كے قائم مقام بن سكے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ كو يہى تعليم دى تھى اس كا بيان درج ذيل روايت ميں ہے:
" براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم سونے كے ليے اپنے بستر پر جاؤ تو نماز كے وضوء كى طرح وضوء كر كے اپنے دائيں پہلو پر ليٹ جاؤ پھر يہ دعا پڑھو:
" اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ "
اے اللہ ميں اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا، اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديا، اور اپنا چہرہ تيرى طرف پھير ليا تيرى رغبت كرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے نہ تجھ سے پناہ كى جگہ ہے اور نہ كوئى بھاگ كر مگر تيرى طرف، ميں تيرى كتاب پر ايمان لايا اور تيرے نبى پر ايمان لايا جسے تو نے بھيجا "
اگر تمہيں اس رات موت آ جائے تو تم فطرت پر ہو، اور يہ كلمات تمہارے آخرى كلمات ہوں اس كے بعد كسى سے بات مت كرو، براء بن عازب بيان كرتے ہيں تو ميں نے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے دہرائى اور جب اللھم آمنت بكتابك الذى انزلت پر پہنچا تو ميں نے اس كے بعد رسولك كہہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں كہو و نبيك الذى ارسلت "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 247 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2710 ).
علامہ معلمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو شخص كتاب اللہ يا سنت رسول ميں ثابت شدہ دعاؤں كو چھوڑ كر دوسريں دعائيں تلاش كرتا پھرے اور ان كى پابندى كرے وہ بہت ہى زيادہ خسارہ ميں ہے، كيا يہ ظلم و عدوان اور دشمنى نہيں ؟! " انتہى
ديكھيں: العبادۃ ( 524 ).
دعا كى دوسرى قسم:
مطلق دعا وہ يہ كہ عام اور خاص ضروريات اللہ تعالى سے طلب كى جائيں، اور بندہ جو چاہتا ہو اور جو اسے ضرورت ہو اس كو طلب كرنے كے ليے اللہ كى طرف متوجہ ہونا، مثلا سجدہ ميں دعا كرنا اور رات كے آخرى حصہ ميں، اور يوم عرفہ كے دن ميدان عرفات ميں حاجى كا دعا كرنا.
اس طرح كى دعاؤں ميں سنت سے ثابت ہونا شرط نہيں بلكہ يہى كافى ہے كہ دعا كے كلمات شرعى اور صحيح ہوں، ان ميں زيادتى و تجاوز نہ ہو، اور نہ ہى اس ميں قطع تعلقى اور گناہ كى دعا كى جائے.
مستقل فتاوى كميٹى كے فتوى جات ميں درج ہے:
" دعا كا باب بہت وسيع ہے، لہذا بندے كو جو ضرورت ہو وہ اپنے رب سے مانگ سكتا ہے جس ميں گناہ نہ ہو.
رہا مسئلہ مسنون دعاؤں اور اذكار كا تو اس كے الفاظ اور صيغہ و عدد توقيفى ہيں، اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ اس كا خيال ركھے، اور اس كى ہى پابندى كرے، نہ تو تعداد ميں اضافہ كرے اور نہ ہى صيغہ و كلمات ميں، اور نہ ہى اس ميں كوئى كمى و تبديلى كرے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 203 - 204 ).
اور فتاوى ميں درج ذيل فتوى بھى ہے:
" كتاب و سنت ميں وارد شدہ دعاؤں كا التزام اور خيال كرنا اور انہيں حفظ اور نشر كرنا چاہيے، ليكن دوسرى دعائيں جو لوگ اپنى جانب سے بناتے ہيں وہ اس طرح نہيں؛ كيونكہ ان كى زيادہ سے زيادہ حالت مباح ہے، اور بعض اوقات وہ دعائيں غلط اور غير صحيح عبارات پر مشتمل ہو سكتى ہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 275 ).
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ سوال ميں جس دعا كا ذكر كيا گيا ہے وہ مطلق دعا ہے، اور اس دعا كے كلمات اور جملے ديكھ كر بھى يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ دعا جائز ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، اور ہميں تو اس ميں كوئى شرعى مخالفت نظر نہيں آتى، بلكہ اس كے كلمات سليم و صحيح ہيں، اس ليے آپ كو اس دعا سے نہيں روكنا چاہيے تھا، اور نہ ہى اس دعا كرنے والے شخص كو جاہل كہنا چاہيے تھا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 21561 ) اور ( 75058 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .