الحمد للہ.
اول:
ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور آپ كے ايمان اور صبر و رضا ميں زيادتى فرمائے، ہم كہتے ہيں كہ:
آپ اللہ كى نعمت اور اس كے فضل پر شكر ادا كريں، كيونكہ آپ كو علم نہيں خير كس ميں پنہاں ہے، ہو سكتا ہے آپ كا اس خاوند سے عليحدہ ہونے ميں ہى بڑى خير ركھى ہو، ليكن يہ چيز آپ كى شخصيت پر اثرانداز نہيں ہونى چاہيے، اور نہ ہى آپ كے عزم ميں كمزورى پيدا ہو، بلكہ اس تجربہ سے مستقبل ميں فائدہ اٹھائيں، كہ كسى بھى ايسے شخص كو قبول مت كريں جس كا دين اور اخلاق پسند نہ ہو، اور اس سلسلہ ميں آپ تساہل سے كام مت ليں.
دوم:
عقد نكاح كے بعد خاوند كے ليے بيوى سے استمتاع كرنا جائز ہے، ليكن وہ عرف كا خيال كرتے ہوئے بيوى كے ساتھ جماع اور دخول مت كرے، كيونكہ عليحدگى كى صورت ميں مشكلات پيدا ہو سكتى ہيں.
آپ نے جو بيان كيا ہے كہ دونوں نے ايك دوسرے سے استمتاع كيا تو يہ دخول كے معنى ميں آتا ہے، اور اكثر اہل علم كے ہاں اس سے مكمل مہر اور عدت لازم آتى ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 97229 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چنانچہ مكمل مہر اور بعد ميں ديا جانے والا آپ كا حق تھا، جبكہ اب آپ اس كو معاف كر چكى ہيں تو اس كى طرف التفات مت كريں، كيونكہ مال تو آنے جانے والى چيز ہے، اور ہميں اميد ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.
سوم:
جس حديث سے خاوند نے استدلال كيا ہے، اور اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غفار قبيلہ كى ايك عورت سے شادى كى اور اس كے پہلو ميں سفيدى ديكھى تو فرمايا: اپنے كپڑے پہنو اور ميكے چلى جاؤ "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پورا مہر بھى ديا "
اس حديث كو احمد اور حاكم نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند ميں جميل بن زيد راوى ہے جس كے متعلق يحي بن معين كہتے ہيں: يہ ثقہ نہيں، اور امام نسائى نے اسے ليس بقوى كہا ہے، اور امام بخارى كہتے ہيں: اس كى حديث صحيح نہيں اس ليے يہ حديث بہت ضعيف ہے، جيسا كہ علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 6 / 326 ) ميں كہا ہے.
اور شيخ شعيب ارناؤط نے بھى مسند احمد كى تحقيق ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
چنانچہ يہ حديث ضعيف ہے، صحيح ثابت نہيں، پھر آپ كے خاوند نے اس حديث كے مطابق بھى عمل نہيں كيا بلكہ صرف اتنا ہى عمل كيا ہے جو اس كا دل چاہتا تھا، اور اگر وہ سارى حديث پر عمل كرتا تو آپ كو سارا مہر ادا كرتا جيسا كہ حديث ميں بيان ہوا ہے.
چہارم:
آپ ميں جو عيب ہے اگر ا سكا آپريشن كے ذريعہ علاج ممكن ہے جيسا كہ ليڈى ڈاكٹر كا كہنا ہے تو پھر يہ نكاح كے عيوب ميں شمار نہيں ہوتا جس كى بنا پر طلاق مباح ہوتى ہے.
اس بنا پر ہميں تو يہى لگتا ہے كہ آپ كے خاوند نے آپ كو طلاق دے كر ظلم كيا ہے.
ليكن جبكہ طلاق ہو چكى ہے تو آپ ہر حال ميں اللہ كا شكر ادا كريں، اور اپنى حالت كو بہتر بنائيں اور اس كا خيال كريں، اور جو ہو چكا اس كو بھول جائيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كريں كہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب كرے.
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اور ہميں بھى توفيق اور ثابت قدمى نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .