الحمد للہ.
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے ليے ايك دوسرے سے لطف اندوز ہونا اور لذت اٹھانا مباح كيا ہے، اور صرف دبر ميں جماع كرنا يا پھر حيض يا نفاس كى حالت ميں جماع كرنا حرام كيا گيا ہے، اس كے علاوہ باقى سب كچھ بيوى كو ديكھنا اور چھونا اور بوس و كنار كرنا اور خوبصورتى و بناؤ سنگھار كرنا، اور محبت كے الفاظ كہنا يہ سب مباحات ميں شامل ہوتا ہے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا بيوى كے ليے شرعى طور پر اپنے خاوند كا سارا جسم ديكھنا جائز ہے، اور خاوند اپنى بيوى كو حلال چيز سے لطف اندوز ہونے كى نيت سے ديكھ سكتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" عورت كے ليے اپنے خاوند كا سارا جسم ديكھنا جائز ہے اور اسى طرح بغير كسى تفصيل كے خاوند كے ليے بھى اپنى بيوى كا سارا جسم ديكھنا جائز ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو لوگ اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، مگر اپنى بيويوں اور لونڈيوں سے يہ لوگ قابل ملامت نہيں، اس كے علاوہ جو كوئى بھى اور راہ اختيار كريگا تو وہى حد سے تجاوز كرنے والا ہے المؤمنون ( 5 - 7 ). انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 226 ).
خاوند اور بيوى كا آپس ميں لطف اندوز ہونے ميں يہ بھى شامل ہے كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے گانا گائے، اور خاوند اپنى بيوى كے ليے گانا گائے، ليكن.... اس ميں كچھ شروط كا ہونا ضرورى ہے تا كہ يہ گانا مباح بن سكے، ذيل ميں كچھ شروط دى جاتى ہيں:
اول:
يہ گانا آلات موسيقى مثلا پيانو، اور بانسرى باجا ڈھول وغيرہ سے خالى ہو.
دوم:
گانا كلام ہے اس كى اچھى چيز اچھى ہے اور برى اور قبيح غلط اور قبيح ہوگى، اس ليے واجب اور ضرورى ہے كہ يہ گانا لوگوں كى عزت ميں طعن يا كسى معين عورت كے اوصاف بيان كرنے سے خالى ہو.
اور اس كے ساتھ ساتھ وہ عبادات و اطاعت اور دينى شعائر كے خلاف كلام سے خالى ہونا چاہيے، اور غزل ہونے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح خاوند اور بيوى كے اوصاف بيان كيے گئے تو بھى كوئى حرج نہيں، اگر معاملہ دونوں كے متعلق ہو تو اس كى كوئى حدود نہيں ہيں.
اور ان دونوں يعنى خاوند اور بيوى كے ليے تو لفظى اور اوصاف والى غزل سے بھى بڑى چيز جائز ہے يعنى جماع.
سوم:
يہ گانا خاوند اور بيوى كے علاوہ كوئى اور نہ سن رہا ہو چاہے ان كى اولاد ہو اگرچہ وہ چھوٹى عمر كے ہى ہوں پھر بھى نہ سن رہے ہوں، يا پڑوسى وغيرہ اس كے علاوہ كوئى اور اجنبى مرد بھى.
يہاں بچوں كو چاہے وہ چھوٹى عمر كے ہى ہوں گانا سننے سے منع اس ليے كيا جائيگا تا كہ ان كى تربيت ميں خلل پيدا نہ ہو، اور اس ليے بھى كہ وہ لوگوں كو كہتے پھريں گے اور پھر ان كے ذہنوں ميں اپنے گھر والوں كى غلط صورت پيدا ہو جائيگى.
اور يہ بات تو سب كو معلوم ہے كہ خاوند اور بيوى كے ليے ہر مباح چيز بچوں كے سامنے اعلانيہ طور پر نہيں كى جا سكتى، مثلا بوس و كنار اور چھونا اور جماع وغيرہ.
شيخ محمد ناصر الدين البانى رحمہ اللہ سے بيوى كا اپنے خاوند كے ليے گانے كا حكم دريافت كيا گيا تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو گانے سے مقصود اور مراد خوبصورت آواز كے ساتھ ان الفاظ ميں گنگنانا ہے جو ہر مسلمان كے ليے صالح ہوں اور وہ بول سكتا ہے: تو پھر وہ جو چاہے گا سكتى ہے ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ اس سے فرض چيز ضائع نہ ہوتى ہو.
ليكن اگر وہ ايسے الفاظ گنگنائے جن كا زبان پر لانا شرعى طور پر ـ اصلا ـ جائز نہيں تو پھر اس حالت ميں كوئى فرق نہيں چاہے وہ خاوند كے ليے گائے يا پھر بھائى كے ليے يا بہن كے ليے.
كيونكہ ـ جيسا كہ آپ جانتے ہيں ـ معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان سے ہے:
" شعر ايسى كلام ہے اس كى اچھى اچھى ہے اور برى اور قبيح برى ہى ہے "
اس ليے جب انسان برى اور قبيح كلام كرے تو اس كا محاسبہ ہوگا، اور جب برى كلام ميں گانا گنگنائےگا تو پھر مؤاخذہ اور بڑھ جائيگا...
اس ليے اگر عورت اپنے خاوند كے سامنے مباح كلام ميں گانا گنگناتى ہے تو گائے، اور جو چاہے خوبصورت آواز ميں مباح كلام گنگنائے.
ليكن اگر اس گانے سے مقصود وہ گانے ہيں جو فحش ہوتے ہيں اور بعض فاسق مرد اور عورتوں كا پيشہ بن چكے ہيں تو پھر اس ميں كوئى فرق نہيں كہ وہ اپنے خاوند كے ليے گائے يا پھر كسى اجنبى اور غير محرم كے ليے " انتہى
سلسلۃ الھدى والنور ككى كيسٹ نمبر ( 42 ) فتوى نمبر ( 10 ).
واللہ اعلم .