الحمد للہ.
اول:
اہل علم كا اتفاق ہے كہ نكاح كے نتيجہ ميں بيوى كا نان و نفقہ واجب ہو جاتا ہے، اور يہ نفقہ معروف طريقہ سے كرنا چاہيے اور بيوى كا نان و نفقہ اس حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے جس كا حكم ديتے ہوئے اللہ نے فرمايا:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
چاہيے كہ مالدار آدمى اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے اور جس كى روزى تنگ ہو وہ اللہ كے ديے ہوئے سے خرچ كرے، اللہ تعالى كسى بھى جان كو اتنا ہى مكلف كرتا ہے جسقدر اسے ديا ہے الطلاق ( 7 ).
ايك دوسرے مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اور جس كا بچہ ہے اس كے ذمہ ان عورتوں كا نان و نفقہ اور ان كا لباس ہے اچھے اور معروف طريقہ سے، كسى بھى جان كو اس كى وسعت و طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كيا جائيگا البقرۃ ( 233 ).
اہل و عيال پر خرچ كرنے والے كو اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں بہت زيادہ اجرعظيم حاصل ہوگا كيونكہ اس نے اپنى بيوى اور اولاد كى ديكھ بھال كى اور ان كى ضروريات پورى كيں اور ان كے ساتھ حسن سلوك كا برتاؤ كيا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 22063 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
بيوى پر اپنے خاوند كى اطاعت كرنا اور گھريلو كام كاج كا خيال اور بچوں كى ديكھ بھال اور تربيت كرنا واجب ہے، اور يہ اشياء اس پر خاوند كے حقوق ميں شامل ہوتى ہيں، اس ليے ان حقوق كى بہتر طريقہ سے ادائيگى كرنا واجب ہے.
اگر بيوى گھر سے باہر جا كر ملازمت اور كام كرتى ہو اور اس كے نتيجہ ميں خاوند كے ان حقوق ميں خلل پيدا ہو تو اس كے نتيجہ ميں درج ذيل شرعى امور منتج ہونگے:
ـ اگر بيوى نے عقد نكاح ميں ملازمت جارى ركھنے يا ملازمت كرنے كى شرط ركھى اور خاوند نے عقد نكاح كے وقت اسے قبول كر ليا تھا تو پھر نكاح كے بعد بيوى كا ملازمت كے ليے جانا صحيح ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، اور ملازمت سے حاصل ہونے والى تنخواہ اور مال بيوى كا خاص ملكيتى حق ہے، خاوند اپنى بيوى كى رضامندى اور خوشى كے بغير تنخواہ ميں سے كچھ بھى نہيں لے سكتا، اور بيوى كو اپنى تنخواہ مرضى كے مطابق خرچ كرنے كا حق حاصل ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 4037 ) اور ( 21684 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.
ليكن اس صورت ميں بھى بيوى كا نان و نفقہ اور اخراجات خاوند كے ذمہ واجب ہوگا، وہ بيوى كے كھانے پينے اور لباس و رہائش مہيا كرنے كا پابند ہے، جب اس نے عقد نكاح كے وقت ملازمت كى شرط قبول كى اور شادى كے بعد بيوى كى ملازمت پر راضى ہوا تھا تو اسے ادراك تھا كہ بيوى كے ملازمت پر جانے كے اوقات ميں اسے بچوں كى ديكھ بھال اور تربيت كے ليے كسى آيا كى ضرورت ہوگى، اور اس كے نتيجہ ميں اسے مزيد اخراجات كا سامنا كرنا پڑيگا، اور پھر مسلمان تو اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں.
ـ ليكن اگر بيوى نے عقد نكاح كے وقت ملازمت كى شرط نہيں ركھى تھى تو پھر خاوند اسے گھر سے باہر جانے سے روك سكتا ہے، اور بيوى كو اپنے خاوند كے اس فيصلہ كو رد كرنے كا حق نہيں.
اور اگر تو اس سے انكار كرتى ہے تو وہ نافرمان اور نشز كہلائيگى، اس صورت ميں بيوى كا نان و نفقہ ساقط ہو جائيگا، اور خاوند كو يہ حق بھى حاصل ہے كہ اگر وہ ملازمت كرنا چاہتى ہے تو بچوں كى ديكھ بھال اور پرورش كے اخراجات اٹھائيگى، يا پھر گھريلو اخراجات ميں خاوند كى معاونت كريگى، يا پھر وہ اپنى تنخواہ سے اپنے اخراجات برداشت كريگى، شرط كے بعد اگر وہ ملازمت كے ليے جانا چاہے تو اسے اس شرط پر پورا اترنا ہوگا.
بحر الرائق ميں درج ہے:
" خاوند اپنى كام كرنے اور دھلائى وغيرہ كا كام كرنے والى بيوى كو كام سے روك سكتا ہے؛ كيونكہ بيوى كےگھر سے باہر جانے ميں خاوند كو ضرر ہے، بلكہ وہ بيوى كو ہر قسم كى آمدنى والے كام سے منع كر سكتا ہے؛ اس ليے خاوند كے ذمہ بيوى كے اخراجات ہونے كى بنا پر بيوى آمدنى سے مستغنى ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: البحر الرائق ( 4 / 212 ).
سوم:
رہا نان و نفقہ كى مقدار كے متعلق تو اس ميں " كفائت " يعنى كافى ہونے كا اصول ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ابو سفيان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ہند رضى اللہ تعالى عنہا كو يہ فرمانا ہے كہ:
" تم بہتر طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر (5364) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).
ليكن اس ميں خاوند كى حالت كا خيال ركھا جائيگا كہ آيا وہ غريب و فقير ہے يا غنى و مالدار، اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
وسعت والا اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے، اور جس پر اس كا رزق تنگ كر ديا گيا ہو تو وہ اس ميں سے خرچ كرے جو اللہ تعالى نے اسے عطا كيا ہے، اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، عنقريب تنگى كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى آسانى پيدا كر ديگا الطلاق ( 7 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 41 / 39 ) كا مطالعہ بھى كريں.
اور يہ كفائت ايك علاقے اور ملك و شہر اور وقت كے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے، ليكن اس كو مكمل مقرر كرنے كے ليے تجربہ كار اور متوسط طبقہ سے رجوع كيا جائيگا، اور اگر خاوند و بيوى اس ميں اختلاف كريں تو انہيں قاضى سے فيصلہ كرانا چاہيے تا كہ وہ ضرورت پورا كرنے كے ليے ان ميں ايك حد مقرر كر سكے.
اور كفائت ميں معتبر چيز كھانا پينا اور لباس كے ساتھ علاج معالجہ بھى شامل ہے، اس كے علاوہ باقى دوسرے زائد اخراجات اور تحفہ جات وغيرہ شامل نہيں ہونگے، يا تو خاوند اور بيوى دونوں ايك معين مبلغ پر متفق ہو جائيں، يا پھر وہ اپنا معاملہ قاضى كى عدالت ميں پيش كريں تا كہ وہ جو مناسب سمجھے مقرر كر دے.
ليكن ہم آپ كو يہى ترغيب دلائيں گے اور يہى نصيحت كريں گے كہ آپ معاملات كو بہتر طريقہ سے ہينڈل كريں اور درگزر سے كام ليتے ہوئے ايك ايك ريال كا حساب مت كرنا شروع كر ديں، بلكہ سخاوت آپ كا طريقہ اور اخلاق ہونا چاہيے، كيونكہ آپ اپنے سب سے قريب تر جو آپ كے اہل و عيال ہيں پر خرچ كر رہے ہيں، اس ليے آپ مال وافر كرنے كے ليے ان پر تنگى كا باعث نہ بن جائيں، يا پھر كہيں يہ چيز آپ كے اور ان كے درميان مخالفت كا سبب نہ ہو.
كيونكہ گھر كى سعادت و خوشى تو مجھول مستقبل كو محفوظ كرنے سے بہتر و اولى ہے، اور ہو سكتا ہے جب آپ بيوى كى عزت و تكريم كرتے ہوئے اس سے درگزر كريں اور اس كى محبت اپنے اندر پيدا كريں تو اس كے نتيجہ ميں بطور احسان وہ بھى احسان كرے، اور اس طرح آپ كے گھر كى سعادت و خوشبختى لوٹ آئے، اور گھريلو اخراجات ميں ممد و معاون ہو جائے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 3054 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .