الحمد للہ.
جب آپ اپنا جانور کسی کو دیں اور اسے خیال رکھنے کی تاکید بھی کریں، لیکن وہ جانور کا خیال نہ رکھے تو اس کا گناہ آپ کو نہیں ہو گا؛ الا کہ آپ کو پہلے سے معلوم ہو کہ وہ جانوروں کا خیال نہیں رکھتا، اور آپ کو غالب گمان ہو کہ آپ کی تاکید کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرے گا تو پھر آپ بھی گناہ میں شریک ہوں گی؛ کیونکہ آپ کے جانور دینے سے اس کی حرام کام پر معاونت ہوئی۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو کہ جانور واپس لے لیں اور اسے تکلیف سے بچا لیں تو آپ پر جانور واپس لینا لازم ہے۔
چنانچہ اگر کسی کی نیت ٹھیک ہو اور کوئی مباح کام کرے تو بنیادی طور پر یہی ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا چاہے اس کے مباح کام کرنے کا نتیجہ کوئی حرام عمل ہی کیوں نہ ہو، الا کہ اسے پہلے سے معلوم ہو یا اسے غالب گمان ہو کہ کسی اور کی طرف سے غلط نتیجہ برآمد ہو گا، تو پھر اس کے لیے اعانت کرنا جائز نہیں ہے۔
فقہائے کرام اس کے لیے یہ مثال دیتے ہیں کہ کوئی ایسے شخص کو انگور فروخت کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ انگوروں کی شراب بناتا ہے، یا ایسے شخص کو اسلحہ فروخت کرے جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ اسے غلط کام میں استعمال کرے گا، اس صورت میں بیع بنیادی طور پر مباح اور حلال ہے لیکن جب یہ معلوم ہو گیا یا غالب گمان ہو گیا کہ خریدار جائز چیز کو حرام میں استعمال کرے گا تو پھر اسے اس جائز چیز کی فروختگی جائز نہیں ہو گی۔
اہل علم عاریۃً لی گئی چیز کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ حرام کام میں استعمال کرنے والے کے لیے کوئی مباح چیز عاریۃً بھی نہیں دی جا سکتی، مثلاً: شراب پینے کے لیے شرابی شخص کو برتن فراہم کرنا، یا خنزیر ذبح کرنے کے لیے چھری دینا، یا حرام کام کا ارتکاب کرنے والے کو مکان فراہم کرنا۔
یہاں غالب گمان کا حکم یقینی علم جیسا ہی ہے، چنانچہ جب غالب گمان یہ ہو کہ مباح کام کا نتیجہ غلط ہو گا تو وہ مباح کام کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں:
"المغنی" (5/131) ، "حاشية الدسوقي" (3/435) ، "مطالب أولي النهى" (3/726)۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
حرام کام کرنا، یا ایسا کام کرنا جس کا غالب گمان کے مطابق نتیجہ غلط اور حرام ہو گا تو وہ عمل کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ غلط نتیجہ کسی اور شخص کی وجہ سے ہی رونما کیوں نہ ہو۔
واللہ اعلم