الحمد للہ.
اول:
نكاح كے مقاصد ميں سب سے عظيم مقصد يہ ہے كہ آدمى اپنى عفت و عصمت محفوظ كر سكے، اور يہ اسى صورت ميں ہو گا جب خاوند اور بيوى آپس ميں مباشرت وجماع كريں، اس طرح خاوند اور بيوى كى عفت و عصمت كى تكميل ہوتى ہے، يعنى نظريں نيچى رہتى ہيںن اور شرمگاہ كى بھى حفاظت ہو جاتى ہے.
بلكہ سارے اعضاء زنا ميں پڑنے سے محفوظ رہتے ہيں، جس طرح آنكھ زنا كرتى ہے، اسى طرح كان اور ہاتھ اور پاؤں كا بھى زنا ہے، جيسا كہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى بيان فرمايا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" طبيب حضرات كى رائے ہے كہ جماع صحت كى حفاظت كا ايك سبب ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" جماع كے فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ نظروں كو نيچا ركھتا ہے، اور نفس كو روكتا ہے، اور حرام سے عفت و عصمت ديتا ہے، اور عورت كو بھى يہى كچھ حاصل ہوتا ہے، اور يہ چيز اسے دنيا و آخرت ميں بھى فائدہ دےگى، اور عورت كو بھى يہى فوائد حاصل ہونگے.
اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا پسند فرماتے اور اس پر عمل كرتے اور فرمايا كرتے تھے:
" مجھے تمہارى دنيا ميں سے عورتيں اور خوشبو پسنديدہ بنايا گيا ہے "
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 228 ).
شريعت مطہرہ نے بيوى كے پاس جانے كا كوئى طريقہ متعين نہيں كيا، بلكہ صرف حيض اور نفاس كى حالت ميں بيوى سے جماع كرنے اور بيوى كى دبر يعنى پاخانہ والى جگہ استعمال كرنے سے منع فرمايا ہے.
دوم:
مباشرت و ہم بسترى كے وقت خاوند اور بيوى كا ہم كلام ہونا خواہش پورى كرنے اور مشروع كردہ لذت كى تكميل كا سبب اور ممد و معاون ہے، اور يہ مباح ہے، اور ہو سكتا ہے اس حالت ميں ايسا مطالبہ كرنا خاوند و بيوى كا آپس ميں محبت و عشق اور پيار كى تعبير ہو، اور اس طرح ان دونوں ميں الفت و محبت زيادہ ہو جائے، اور يہ چيز طرفين كو جماع پر انگيخت كرتى ہے جس كى بنا پر ہر خاوند اور بيوى دونوں كو عفت و عصمت حاصل ہوگى.
جماع و ہم بسترى و معاشرت كى ابتدائى اشياء ميں بوس و كنار اور ہم كلام ہونا تو ايك قول كےمطابق " رفث " ہے جو صرف احرام كى حالت ميں محرم كے ليے جائز نہيں، اس ميں يہ اشارہ پايا جاتا ہے كہ اس حالت كےعلاوہ باقى حالات ميں ايسا كرنا جائز ہوگا.
اور يہ چيز خير القرون اور اس كے بعد والے ادوار ميں بھى ثابت ہے، اور كتب فقہ ميں بھى اس كا ذكر ملتا ہے كہ يہ جماع كے آداب ميں شامل ہوتا ہے، اور اس سے خاوند اور بيوى كے مابين الفت و محبت ميں اضافہ ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
حج كے مہينے مقرر ہيں اس ليے جو شخص ان ميں حج لازم كر لے وہ اپنى بيوى سے ميل ملاپ كرنے، اور گناہ كرنے اور لڑائى جھگڑا كرنے سے اجتناب كرے البقرۃ ( 197 ).
شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:
" آيت ميں مذكور لفظ " رفث " كے معنى كے متعلق يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ دو چيزوں پر مشتمل ہے:
اول:
عورتوں سے جماع و ہم بسترى اور اس كے ابتدائى امور كے ساتھ مباشرت كرنا.
دوم:
ان امور كى كلام كرنا، مثلا احرام والا شخص اپنى بيوى سے كہے: اگر ہم اپنے احرام سے حلال ہو جائيں تو ہم ايسے ايسے كريں گے.
عورت سے مباشرت پر رفث كا اطلاق اس كےساتھ جماع كى طرح ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارے ليے روزوں كى راتيں اپنى بيويوں كے ساتھ مباشرت كے ليے حلال كر دى گئى ہيں البقرۃ ( 187 ).
تو يہاں آيت ميں الرفث سے مراد جماع و ہم بسترى اور اس كى ابتدائى اشياء كر كے مباشرت كرنا مراد ہے.
ديكھيں: اضواء البيان ( 5 / 13 ).
اس ميں كوئى حرج نہيں كہ خاوند اور بيوى ايسى كلام كريں جس سے شہوت ميں انگيخت اور ابھار پيدا ہو، چاہے اس كے ليے شرمگاہ كےمعروف نام بھى لينا پڑيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اس كے جواز كى تفصيل ہم سوال نمبر ( 45597 ) ميں بيان كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
خاوند اور بيوى كے مابين محبت و عشق اور الفت كے كلمات كہنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر ان الفاظ كے ساتھ شہوت ميں انگيخت پيدا ہوتى ہو تو خاوند اور بيوى كا آپس ميں ايك دوسرے كے سامنے شرمگاہ كے صريح يا عرف عام ميں استعمال كردہ الفاظ ذكر كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.
اللہ تعالى جزائے خير دے امام ابن قتيبۃ رحمہ اللہ كو كہ انہوں نے اس مسئلے پر بھى نظر دوڑائى اور بيان كيا ہے حتى كہ انہوں نے بيان كيا ہے كہ ان اعضاء كو ان كےصريح ناموں سے بيان كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، بلكہ گناہ اس ميں ہے كہ كسى كى عزت داغ دار كرتے ہوئے اس پر بہتان لگايا جائے اور ان الفاظ كو اپنى عادت بنا ليا جائے.
ابن قتيبۃ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر خاوند يا بيوى كے مابين بات چيت كے دوران شرمگاہ كے صريح نام ذكر كيے جائيں يا فحش وصف بيان ہو تو آپ كو خشوع اس پر مت ابھارے كہ آپ اس سے اعراض كرنے لگيں يا چہرہ دوسرى طرف پھير ليں، كيونكہ اعضاء كے نام لينے ميں كوئى گناہ نہيں، بلكہ گناہ تو اس ميں ہے كہ دوسروں كى عزت سے كھيلتے ہوئے ان پر بہتان بازى كى جائے اور جھوٹى بات كى جائے، اور جھوٹ بولا جائے، اور لوگوں كى چغلى اور غيبت كرتے ہوئے لوگوں كا گوشت كھايا جائے "
ديكھيں: عيون الاخبار ( 1 ) مقدمہ صفحہ ل .
اور ايك مقام پر رقمطراز ہيں:
" ميں اس كى رخصت نہيں دے رہا كہ آپ ہر حالت ميں ايسے كلمات اپنى زبان سے نكالنے كى عادت ہى بنا ليں، اور ہر بات كرتے وقت آپ كى يہ عادت بن جائے، بلكہ ميرى جانب سے اس كى رخصت اس حالت ميں ہے جب تم حكايت بيان كر رہے يا پھر روايت بيان كر رہے ہو اور اسميں كنايہ استعمال كرنے سے نقصان ہوتا ہو، اور اس كى مٹھاس جاتى رہے "
ديكھيں: عيون الاخبار ( 1 ) مقدمۃ صفحہ م.
كلام كى اباحت اور اجازت صرف خاوند اور بيوى كو جماع كے وقت ہے يہ نہيں ہونا چاہيے كہ يہ كلام سب و شتم اور گالى ميں تبديل ہو كر حرام اور فحش كارى كى تہمت تك جا پہنچے، چاہے وہ اس كلام سے گالى كى حقيقت نہ بھى چاہتا ہو توبھى جائز نہيں.
اگرچہ وہ اس كلام سب و شتم سے كلام كى صراحت كرنا چاہتا ہو تو بھى جائز نہيں، كيونكہ مومن كى عادت نہيں كہ وہ اپنى زبان كو سب و شتم اور بہتان ترازى كا عادى بنائے.
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن نہ تو طعن بازى كرنے والا ہوتا ہے اور نہ ہى لعنت كرنے والا، اور نہ ہى فحش گوئى اور گندى كلام كرنے والا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر ان افعال ميں غلط قسم كے اور بازارى و زانى قسم كے مرد و عورت سےمشابہت ہوتى ہے، اس ليے كسى بھى مسلمان كے شايان شان نہيں كہ وہ اپنے پاكيزہ ازدواجى بستر كو ايسى حالت ميں بنا ڈالے جو زنا كے اڈوں اور گرے پڑے بازارى قسم كے مرد و عورت كے ہاں ہوتا ہے، يہ گندے قسم كے لوگ ايسے الفاظ كےزيادہ مستحق اور اہل ہيں نہ كہ ايك عفت و عصمت ركھنے والى پاكباز عورتز
پھر يہ بھى خدشہ ہے كہ اگر خاوند اور بيوى اس طرح كے كلمات كے عادى ہو گئے تو اس كے علاوہ ان كے تعلقات ٹھنڈے ہو جائيں گے، اور ان ميں گرمجوشى نہيں بلكہ خشكى آ جائيگى، يا پھر اس طرح كے كلمات كى ادائيگى ان كى عادت بن جائيگى اور وہ جماع كے وقت كے بغير بھى يہ كلمات ادا كرنے لگيں گے، خاص كر اگر ان ميں جھگڑا ہوا يا پھر دل اور نفس ميں تبديلى آ گئى تو وہ يہ غلط قسم كےكلمات ادا كريں گے؛ جس كےنتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہونگى جو كسى عقل و دانش والے پرمخفى نہيں.
اللہ كے بندے آپ كے سوال سے ہميں تو جو حقيقى طور پر گھبراہٹ اور فكر ہوئى ہے وہ يہ كہ آپ كا اپنى منگيتر كے ساتھ اس طرح كے امور ميں اور پھر اس صراحت كے ساتھ بات چيت كرنا حقيقتا ايك ايسى جرات ہے جس كا نتيجہ اچھا نہيں، اور آپ دونوں اس ميں قابل تعريف نہيں بلكہ قابل مذمت ہيں.
آپ نے اپنے آپ كو اپنى منگيتر كےساتھ اس طرح كى كلام كرنے كى اجازت كيسے دى حالانكہ وہ آپ كے ليے ايك اجنبى عورت ہے، اور پھر اس عورت نے بھى اس طرح كى مكمل صراحت كے ساتھ بات چيت كرنے كى اجازت كيسےدى حالانكہ آپ اس كے ليے ايك اجنبى مرد كى حيثيت ركھتے ہيں.
پھر تعجب تو اس پر ہے كہ آپ كو ايسى فرصت كيسے حاصل ہوئى كہ آپ اس طرح خلوت كر كے ايسى كلام كريں جس كا ذكر كرنا بھى مستحيل ہے، كہ ايسى كلام تو آپ كے علاوہ كسى اور كے سامنے اشارہ كنايہ ميں بھى نہيں كى جا سكتى.
اس سوال سے تو يہى پتہ چلتا ہے كہ آپ دونوں نے آپس كے تعلقات ميں بہت تساہل سے كام ليا ہے، اور اس ميں آپ دونوں نے ہى اللہ كى حدود سے تجاوز كا ارتكاب كرتے ہوئے گناہ كيا ہے، اس طرح شيطان نے آپ دونوں كے دلوں ميں شہوت كا وہ طوفان بپا كيا جس كےبارہ ميں آپ دونوں كا گمان ہے كہ اسے وہ چيز جس كى لوگوں كو عادت ہے وہ ختم نہيں كر پائيگى اور اس آگ كو نہيں ٹھنڈا كر سكےگى، اس ليے تم نے اس كے ليے ايسے طريقے اور ہر عجيب و غريب طريقہ تلاش كرنا شروع كر ديا چاہے وہ شاذ ہى كيوں نہ ہو !!
اس ليے آپ دونوں پر واجب ہے كہ آپ ان مخالفات كى كوئى حد مقرر كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى كے سامنے حدود سے تجاوز كرنے پرتوبہ و استغفار كريں جس كا آپ دونوں مرتكب ہوئے ہيں.
اور آپ دونوں كو يہ علم ہونا چاہيے كہ آپ كے سامنے اب بالكل تھوڑى سى چيز ہى باقى بچى ہے يعنى عقد نكاح اور رختصى تك كا وقت اس ليے آپ صبر و تحمل سے كام ليں حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ دونوں كو حلال و پاكيزہ چيز اور جسے اللہ پسند فرماتا اور جس سے راضى ہوتا ہے پر جمع فرما دے.
تو پھر اس وقت آپ دونوں كو علم ہو گا كہ عفت و عصمت ہى نہيں بلكہ حلال طريقہ سے حاجت پورى كرنا اس طرح كى اشياء كى محتاج نہيں ہے.
اور جو كوئى بھى عفت وعصمت اختيار كرنا چاہتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى ضرور اسے عفت و عصمت عطا فرماتا ہے "
آپ منگيتر كے ساتھ تعلقات كے بارہ ميں مزيد معلومات حاصل كرنے كے ليے سوال نمبر ( 2572 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .