الحمد للہ.
انسان كے ليے اپنى ضروريات زندگى تيار كرنا جائز ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ اپنے اہل و عيال كے ليے ايك سال كى خوراك كھجور وغيرہ جمع كر ليا كرتے تھے.
صحيح بخارى ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو نضير كى كھجور فروخت كر كے اپنے گھر والوں كے ليے ايك سال كى خورا ك ركھ ليا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5357 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" يہاں ضرورت واقع كى بنا پر ايك برس كى تقييد آئى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو چيز زخيرہ كرتے وہ سال ميں ايك بار ہى حاصل ہوتى تھى، كيونكہ يا تو وہ كھجور ہوتى يا پھر جو.
بالفرض اگر زخيرہ كى جانے والى چيز دو برس بعد ايك بار حاصل ہوتى ہو تو حالات كے پيش نظر اتنى مدت كے ليے زخيرہ كرنى جائز ہو گى، واللہ اعلم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 503 ).
ليكن مسلمان شخص نفقہ اور اخراجات ميں اتنى وسعت نہ كرے كہ ايسى اشياء بھى خريد كر ركھ لے جن كى ضرورت بھى نہ ہو.
امام مسلم رحمہ اللہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك بستر آدمى كا اور ايك بستر اس كى بيوى كا، اور تيسرا بستر مہمان كے ليے، اور چوتھا بستر شيطان كے ليے ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2084 ).
اس حديث كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" علماء كرام نے اس كا معنى يہ كيا ہے كہ: جو چيز ضرورت سے زائد ہو وہ دكھلاوے اور فخر اور دنياوى زينت و تفاخر كے ليے ہے، اور جو چيز بھى اس صفت اور طريقہ پر ہو وہ قابل مذمت ہے، اور ہر مذموم چيز شيطان كى طرف مضاف ہوتى ہے كيونكہ وہ اس سے راضى ہوتا اور اس كى ترغيب دلاتا اور وسوسہ لاتا ہے، اور اسے بہتر اور خوبصورت بنا پر بيش كر كے اس كى معاونت بھى كرتا ے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ حديث اپنے ظاہر پر ہے اگر بغير ضرورت كے ہو تو يہ شيطان كے ليے ہے وہ اس پر سوتا اور قليلولہ كرتا ہے، بالكل اسى طرح جس گھر ميں وہاں داخل ہونے والا گھر جانے كى دعا نہيں پڑتا تو شيطان كو رات بسر كرنے كا موقع مل جاتا ہے.
رہا بيوى اور خاوند كے ليے متعدد بستر يعنى ايك سے زائد تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ بيمارى كى حالت ميں ہو سكتا ہے خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كو عليحدہ بستر كى ضرورت پيش آئے " انتہى
اس ليے مسلمان شخص كو جس چيز كى ضرورت ہو كھانا اور سامان وغيرہ جو اسراف اور فضول خرچى كى حد تك نہ ہو اور مال ضائع ہونے كا باعث نہ بنے اسے زخيرہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
رہا يہ كہ مسلمان كسى خريدى ہوئى چيز سے فائدہ اٹھانے سے قبل ہى فوت ہو جائے تو يہ چيز اسے ضرر و نقصان نہيں دے سكتى، كيونكہ اس كے نہ ہونے كى صورت ميں اس كے ورثاء اس سے فائدہ اٹھائيں گے، اور وہ ورثاء پر صدقہ ہے خاص كر جب ورثاء محتاج اور ضرورتمند ہوں.
رہا يہ كہ ہو سكتا ہے عورت شادى ہى نہ كرے، تو يہ سوء ظن ہے اور كسى مسلمان شخص كے شايان شان نہيں، اس ليے بندے كو اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ حسن ظن ركھنا چاہيے، كيونكہ حديث قدسى ميں اللہ تعالى كا فرمان ہے:
" ميں اپنے بندے كے اپنے بارہ ميں گمان كے مطابق ہوتا ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6856 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4832 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم متوكلين كے سردار تھے، اور دنيا ميں جتنے بھى زھاد ہيں ان كے سردار اور ان ميں سب سے افضل واعلى ہيں، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں كے ليے ايك برس كا غلہ جمع كر ليا كرتے تھے، جيسا كہ اوپر كى سطور ميں بيان ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .