سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک لڑکے نے نذر کے روزے رکھنے ہیں کیا رمضان کے روزوں کے ساتھ ان کی نیت بھی کر سکتا ہے؟

سوال

میں نے ایک منت مانی تھی  اور اس لیے میرے ذمے روزے ہیں، تو کیا میں اپنی منت کے روزے رمضان کے روزوں کے ساتھ نیت کر کے رکھ سکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نیکی اور اطاعت کے کاموں پر مشتمل منت اور نذر کو پورا کرنا واجب ہے، مثلاً: کوئی شخص ایک یا زیادہ دنوں کا روزہ رکھنے کی منت مانے، تو اسے یہ نذر پوری کرنی ہو گی؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص نذر مانے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اطاعت کرے) اس حدیث کو امام بخاری: (6318) نے روایت کیا ہے۔

پھر اگر یہ نذر کسی خاص وقت کے ساتھ مختص کر کے مانی گئی تھی تو اسے اِسی مخصوص وقت میں پورا کرنا واجب ہو گا، مثلاً: ایک شخص کسی مہینے کے آغاز میں تین روزے رکھنے کی نذر مانے، اور اگر مطلق نذر مانے کسی خاص وقت  کے ساتھ مختص کر کے نذر نہ مانے تو پھر اس کے لئے کسی بھی وقت میں نذر کے روزے رکھنے کی اجازت ہے، ما سوائے ماہ رمضان ، عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق کے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان میں اس لیے منت کے روزے نہیں رکھ سکتا کہ رمضان میں فرض روزے رکھنے ہوتے ہیں، اس لیے فرض روزوں کے علاوہ کوئی اور روزے رکھنا صحیح نہیں ہو گا۔

جب کہ ایام عید اور ایام تشریق میں اس لیے روزے نہیں رکھ سکتا کہ ان دنوں میں روزے رکھنے کی ممانعت ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (6212) ہے کہ زیاد بن جبیر کہتے ہیں میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو ان سے ایک آدمی نے پوچھا:  میں نے نذر مانی ہوئی ہے کہ جب تک زندہ رہا ہر منگل یا بدھ کو روزہ رکھوں گا، اور یہ دن یوم النحر [قربانی کے دن] آ گیا ہے [تو اب میں کیا کروں؟] اس پر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ: اللہ تعالی نے ہمیں نذر کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور قربانی کے دن روزہ رکھنے سے روکا ہے۔ یہ سن کر آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دوبارہ بھی وہی الفاظ دہرائے ان سے ایک لفظ بھی زیادہ نہ بولا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ اس شخص کے لئے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن نفل یا نذر کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔" ختم شد

صحیح بخاری: (1998) میں سیدہ عائشہ ، اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ دونوں کہتے ہیں کہ: ایام تشریق میں روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے، صرف انہی لوگوں کو روزہ رکھنے اجازت ہے جس کے پاس ہدی میسر نہ ہو۔

اہل علم نے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ رمضان میں رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ روزے نہیں رکھے جا سکتے۔

چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/315)   میں لکھتے ہیں:
"امام شافعی اور ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ: رمضان صرف رمضان کے روزوں کے لئے مختص ہے، رمضان میں غیر رمضان کے روزے صحیح نہیں ہوں گے، چنانچہ اگر کوئی مقیم، یا مسافر یا مریض کفارے ، یا نذر، یا قضا، یا نفل یا مطلق  روزے کی نیت سے روزہ رکھے تو اس کی یہ نیت ہی صحیح نہیں ہو گی اور نیز اس کا روزہ بھی صحیح نہ ہو گا نہ تو جس روزے کی نیت کی تھی اور نہ ہی رمضان کا روزہ۔[یعنی اس کا رکھا ہوا روزہ ضائع ہو گا۔]" ختم شد

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" میں کہتے ہیں:  
"مسافر کے لئے رمضان میں نذر یا قضا وغیرہ جیسے غیر رمضان کے روزے رکھنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت  مسافر کی آسانی کے لئے دی گئی، تو اگر اس نے یہ سہولت نہیں لینی تو اس پر اصل فرض روزہ رکھنا لازمی ہو گا، چنانچہ اگر مسافر غیر رمضان کا روزہ رکھنے کی نیت کر  لے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا، اور نہ ہی اس کا رکھا ہوا روزہ رمضان کا روزہ شمار ہو گا، جس روزے کی نیت کی تھی وہ بھی نہیں ہوگا۔ [حنبلی] فقہی مذہب میں یہ صحیح ترین موقف ہے، اور یہی اکثر علمائے کرام کا موقف بھی ہے" ختم شد

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (13/645) میں مزید لکھتے ہیں:  
"اگر کوئی شخص کہے: میں نذر مانتا ہوں کہ ایک ماہ اللہ کے لئے روزہ رکھوں گا، پھر اس نے  رمضان کے روزے اپنی نذر اور رمضان دونوں کی نیت سے رکھے تو اس کے لئے کفایت نہیں کریں گے، بالکل اسی طرح اگر کسی نے دو رکعت نماز ادا کرنے کی نذر مانی ، تو فجر کی دو فرض رکعات  میں نذر اور فرض نماز کی نیت جمع کر لے تو نہ اس کی فرض نماز ہو گی اور نہ ہی نذر کی رکعتیں ہوں گی۔" مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی کام کے ہونے پر  روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو اس پر واجب ہے کہ جیسے ہی کام ہو جائے تو فوری نذر کے روزے رکھے، اس میں تاخیر کا شکار مت ہو، اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک شخص نے کہا: اگر اللہ تعالی نے مجھے اس بیماری سے شفا دے دی تو اللہ کے لئے  میں نذر مانتا ہوں کہ تین دن کے روزے رکھوں گا۔ اب اللہ تعالی نے اسے شفا دے دی تو اس پر لازمی ہے کہ جلد از جلد روزے رکھے تاخیر مت کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ * فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ * فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقاً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ  ترجمہ: اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنی مہربانی سے عطا کرے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیک بندے بن جائیں گے [75] پھر جب اللہ نے اپنی مہربانی سے عطا کر دیا تو بخل  کرنے لگے اور کمال بے اعتنائی سے (اپنے عہد سے) پھر گئے [76] جس کے نتیجہ میں اللہ نے ان کے دلوں میں اس دن تک کے لئے نفاق ڈال دیا جس دن وہ اس سے ملیں گے ۔[التوبہ: 75-77]  ۔

اور اگر کسی نے مطلق نذر مانی [کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں تھا] ، مثلاً: کوئی اپنے آپ کو روزوں کا عادی بنانے کے لئے کہے: میں نذر مانتا ہوں کہ تین دن کے روزے رکھوں گا۔ ان روزوں کا کوئی سبب ذکر نہیں کرتا، تو ایسے شخص پر بھی ضروری ہے کہ جلد از جلد یہ تین روزے رکھے، تاہم اس کا وجوب ایسا نہیں ہے جیسے پہلی صورت میں تھا۔ تاہم اگر رمضان آ گیا اور اس نے یہ تین روزے نہیں رکھے تھے تو سب کو معلوم ہے کہ وہ پہلے رمضان کے روزے رکھے گا اور پھر نذر کے روزے پورے کرے گا، لیکن اگر وہ رمضان میں ہی نذر کے روزے رکھنا شروع کر دے تو اس کے روزے نہ تو نذر والے شمار ہوں گے اور نہ ہی رمضان کے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں: ایک انسان پر نذر کے تین روزے تھے، اس نے رمضان کے دنوں میں تین روزے نذر کی نیت سے رکھے، اب اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے یہ تین روزے نہ نذر کے شمار ہوں گے نہ ہی رمضان کے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر کے روزے اس لیے نہیں ہوں گے کہ رمضان میں غیر رمضان کے روزے رکھنا جائز نہیں ہے، اور رمضان کے روزے اس لیے نہیں ہوں گے کہ اس نے رمضان کے روزوں کی نیت ہی نہیں کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔)" ختم شد
"اللقاء الشهری" (52/4)

حاصل کلام:

یہ ہے کہ رمضان میں صرف فرض روزے ہی رکھے جا سکتے ہیں، رمضان میں مقیم یا مسافر کے لئے کوئی  اور روزے چاہے نفل ہوں یا نذر کے رکھنا جائز نہیں ہے، بالکل اسی طرح رمضان کے روزوں کی نیت کے ساتھ کسی اور قسم کے روزوں کی نیت جمع کرنا بھی جائز نہیں ہے، مثلاً: فرض اور نذر کے روزے ایک ساتھ نیت سے رکھے تو یہ جائز نہیں؛ کیونکہ یہ ان دونوں عبادتوں کو الگ الگ کرنا مقصود  اور مطلوب ہے، اس لیے ایک نیت سے دو  عبادتیں نہیں ہوں گی۔

اس بنا پر آپ کے لیے رمضان کے روزوں کے ساتھ نذر کے روزوں کی نیت کرنا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب