جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ہم جنس پسندی کے خطرات، علاج اور متاثر شخص سے تعامل کا طریقہ

سوال

جس وقت کوئی آپ کی ذات میں دلچسپی رکھتا ہو اور کھنچتا چلا آ رہا ہو، پھر یہ دلچسپی معقول حد سے بڑھ بھی جائے جیسے کہ لڑکیاں آپس میں بڑھ جاتی ہیں، تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ ایسے شخص کا علاج کیسے کر سکتے ہیں کہ جس سے آپ کو بھی نقصان نہ ہو اور دوسرا بھی نقصان سے بچ جائے؟ واضح رہے کہ ایسے میں انسان غلط کاری میں بھی ملوث ہو سکتا ہے، آپ ایسے شخص کو اس صورت حال میں دینی اور دنیاوی ہر دو اعتبار سے کیا نصیحت کریں گے؟ اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں اجر سے نوازے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد کا عورت کی جانب اور عورت کا مرد کی جانب میلان فطری اور طبعی امر ہے، لیکن کسی مرد کا مرد کی جانب شہوانی میلان غیر فطری امر ہے، اللہ تعالی نے انسان کو اس مزاج پر پیدا نہیں فرمایا، ہم جنس پسندی  در حقیقت معاشرے میں پھیلنے والا گھٹیا ناسور ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے دل ایمانیات اور عقائد سے عاری ہو کر کافروں کے معاشروں کی تقلید میں لگے ہوئے ہیں جنہوں نے فطری امور سے تصادم کی راہ اختیار کیا ہے، پھر یہ ہم جنس پسندی بڑھتے ہوئے عشق تک جا پہنچتی ہے جس کی بنا پر لڑکی اپنی معشوقہ کو دیکھے، سنے اور بات کئے بغیر نہیں رہ سکتی، اور معاملہ طبق زنی (خواتین کا ہم جنسی عمل) تک جا پہنچتا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
خواتین کا چپٹی کھیلنا (خواتین کا ہم جنسی عمل) اور ہاتھ سے منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب  دیا کہ:
"لڑکیوں کا آپس میں جنسی عمل حرام ہے، بلکہ کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کے اس فرمان سے متصادم ہے: (وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ * فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ)
ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ٭ ماسوائے اپنی بیویوں  اور لونڈیوں کے ، تو وہ قابل ملامت نہیں ہیں ٭ پس جو شخص بھی ان کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے تو یہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔[المؤمنون:5 – 7]

نیز اسی آیت کی رو سے جلق [ہاتھ سے منی کا اخراج]بھی منع ہے؛ کیونکہ یہ بھی سنگین نتائج کا باعث ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ غدیان، شیخ عبد اللہ قعود۔
فتاوی دائمی کمیٹی (22/68)

دوم:

اگر کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ کوئی اس میں غلط حد تک دلچسپی رکھتا ہے تو پھر اسے حکمت اور دانائی کے ساتھ اس کا علاج کرنا چاہیے، اس کیلیے درج ذیل اقدامات کر سکتا ہے:

  1. فریق ثانی کو ایمانیات کی تلقین کرے، اسے نیکی کرنے کی ترغیب دلائے اور برائی سے دور رہنے کا کہے۔
  2. اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو اجاگر کرے۔
  3. اللہ کیلیے محبت کا مفہوم اس کے دل میں اجاگر کرے، یہ بھی بتلائے کہ اللہ کیلیے محبت کا ترازو یہ ہے کہ محبوب سے محبت کا معیار اللہ کی بندگی ہو نہ کہ صورت اور مورت معیار ہو۔
  4. بار بار رابطہ کرنے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی اسے بار بار ملنے دیں۔
  5. ملاقات کے وقت ٹکٹکی لگا کر دیکھنے مت دیں، یا بغل گیر اور بوسہ نہ لینے دیں۔
  6. اس شخص کو علمی اور دعوتی امور میں مشغول کریں، مثلاً: کسی بھی مسئلے پر دلائل اکٹھے کرنے  کا ٹاسک دیں، کسی کتاب یا کیسٹ کو سن کر تلخیص کروائیں، اسی طرح دعوتی میدان میں لوگوں کے ساتھ عملی طور پر مشغول کر دیں، دعوتی لٹریچر تقسیم کریں، یا اسی طرح کے دیگر مباح اور جائز امور میں اس کا وقت صرف کروائیں۔

سوم:

اگر انسان کو یہ محسوس ہو کہ وہ خود کسی پر فریفتہ ہو رہا ہے، اور یہ بھی نظر آئے کہ یہ شیطانی چال ہے تو پھر اس صورت حال سے نکلنے کی پوری کوشش کرے، اور معاملہ بگڑنے سے پہلے اپنے آپ کو سنبھال لے مبادا معاملہ حرام عشق تک نہ جا پہنچے، اس کیلیے وہ درج ذیل اقدامات کر سکتا ہے:

  1. اپنے دل کو اللہ تعالی کے ساتھ جوڑے؛ کیونکہ وہی اس پر ہمہ قسم کی نعمتیں برساتا ہے، اس لیے حقیقی انعام کار کے ساتھ اپنا تعلق بنائے۔
  2. جس میں دلچسپی پیدا ہونے کے اثرات نظر آ رہے ہیں تو اس سے اپنے تعلقات یکسر ختم کر دے، اس کی آواز مت سنے، نہ ہی اس کی تصویر دیکھے بلکہ اس سے ملاقات کرنے کی بھی کوشش نہ کرے، چاہے وہ شخص استاد، تربیت کار، یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، یہ اس بیماری کے علاج کا بہترین ذریعہ ہے۔
  3. سلف صالحین، علمائے کرام اور مجاہدین کی سیرت کا مطالعہ کرے، اور اپنی زندگی پر نظر دوڑائے کہ ان لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کیلیے کیا کچھ پیش کیا  اور وہ اپنے محبوب کی تصویر میں ڈوبا ہوا ہے  ، اس کی آواز کا دلدادہ  بن چکا ہے اور  اس کی باتیں پڑھنے کا ہی گرویدہ بن کے رہ گیا ہے
  4. اس کے ساتھ ساتھ ان بیماریوں کے مضر اثرات کو بھی اپنے سامنے رکھے کہ ہم جنس پسندی اور عشق  دونوں ہی انسان کو گھن لگا دیتے ہیں، ان کے کچھ نقصانات درج ذیل ہیں:
  • انسان اپنے پروردگار  اور خالق سے کٹ کر مخلوق کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے جو نہ تو اسے نفع دے سکتی ہے اور نہ ہی نقصان۔
  • خواہ مخواہ   کی پریشانی، غم، دکھ،  اور بے چینی لگ جاتی ہے، پھر  دنیا میں مایوسی اور آخرت میں عذاب بھی ہوگا۔
  • اس کے نقصانات میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان تصورات میں  اپنے محبوب اور معشوق کے ساتھ  اپنی شہوت پوری کرتا ہے، آنکھیں چرانا، چھونا، بوس و کنار وغیرہ ، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ  ان تصورات کو عملی دنیا میں لانے کیلیے عورت طبق زنی پر مجبور ہو جائے اور مرد لواطت پر !!
  • فطرت سلیم بھی اس سے متاثر ہوتی ہے کہ فطری جنسی قوت اور طاقت اپنی حقیقی قوت کھو بیٹھتی ہے، اس لیے عورت اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات میں ناکام رہتی ہے  اور اسے وہی کام کرنے کی رغبت ہوتی ہے جس کی اسے عادت پڑ چکی ہے، یہی کچھ مرد کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

چہارم:

مسلمانوں کا باہمی تعلق شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، اس کی بنیاد تقوی ہو۔ اگر کوئی شخص اس دنیا میں گناہ کی بنا پر تعلقات بناتا ہے تو کل آخرت کے دن وہ سب کے سب دشمن بن جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ )
ترجمہ: اس دن متقی لوگوں کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کیلیے دشمن ہو جائیں گے۔ [الزخرف:67]

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: دنیا میں گناہوں کی بنا پر ایک دوسرے کے دوست بننے والے افراد روزِ قیامت آپس میں دشمن بن جائیں گے، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اظہار لاتعلقی کرے گا، صرف وہ لوگ وہاں بھی باہمی دوست ہوں گے جن کا تعلق تقوی الہی کی بنیاد پر تھا"
تفسیر طبری: ( 21 / 637 )

اسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسی دوستی جو غیر اللہ کی بنیاد پر تھی وہ قیامت کے روز عداوت میں تبدیل ہو جائے گی، صرف وہی دوستی قائم رہے گی جو اللہ کیلیے تھی، تو یہ دوستی دائمی وقت تک قائم رہے گی"
تفسیر ابن کثیر: ( 7 / 237 )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دوستی اور محبت دونوں فریقوں کے مفاد میں نہ ہو تو اس کا انجام دشمنی ہو گا۔ اور فریقین کیلیے مفید اسی وقت ہو گی جب یہ محبت اللہ کیلیے ہو۔اگر دونوں فریق ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کی  کوشش کرتے ہیں، اور رضا مندی سے تعاون بھی کرتے ہیں، تو اس باہمی تعاون اور مدد کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، یہ روزِ قیامت  بغض ، دشمنی، لعن طعن میں تبدیل ہو جائے گی اور ہر ایک فریق دوسرے سے کہے گا: اگر تم نہ ہوتے تو میں اکیلا یہ حرکت نہ کرتا، میں تمہاری اور اپنی کوتاہی کی وجہ سے تباہ ہوا ہوں۔

پھر وہاں پر اللہ تعالی بھی انہیں باہمی بغض، دشمنی اور لعن طعن سے نہیں روکے گا، چنانچہ اگر ان دونوں میں ایک دوسرے پر ظلم کر رہا ہوتا تو اللہ تعالی کی جانب سے اسے روک دیا جاتا، ہر ایک دوسرے کو کہے گا: تم نے اپنے شخصی مفاد کیلیے مجھے اس چنگل میں پھنسایا، بالکل اسی طرح جیسے زانی دوسرے فریق کو کہتا ہے کہ تم نے مزے لینے کیلیے میرے ساتھ ایسا کیا ہے، اگر تم مجھ سے دور رہتے تو میں ایسی حرکت نہ کرتا، لیکن در حقیقت دونوں نے ہی یہاں پر یکساں فائدہ لیا ہے تو اس طرح دونوں ہی برابر کی سزا کے مستحق ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى " ( 15 / 129 )

توبہ کا دروازہ توبہ کرنے والے سب لوگوں کیلیے کھلا ہے، ایمان و اطاعت کی لذت ہر اس شخص کیلیے میسر ہے جو ان کی لذت اٹھانا چاہتا ہے، اللہ تعالی گناہ معاف فرما دیتا ہے، توبہ قبول فرماتا ہے؛ بلکہ گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِلَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً)
ترجمہ: مگر جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرنے لگے تو ان کے برے اعمال کو اللہ نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الفرقان: 70 ]

اسی طرح فرمایا:
( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )
ترجمہ: اور بیشک میں توبہ  کر کے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے کے بعد راہ راست پر رہنے والوں کو بخشنے والا ہوں ۔ [ طہ: 82]

اس بارے میں مزید جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (10050 ) کا جواب ملاحظہ کریں، اس میں اس چیز کی وضاحت ہے کہ اسلام نے لواطت اور طبق زنی کو کیوں حرام قرار دیا ہے۔

اسی طرح سوال نمبر: (21058 ) میں  طبق زنی کی سزا بیان کی گئی ہے جبکہ ( 60351 )  اور (36837) میں روزانہ کی بنیاد پر اسکول کی طالبات کا آپس میں بوسہ دینا اور ہونٹوں کو چومنے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔

اسی طرح سوال نمبر: (591 ) میں لڑکیوں کی آپس میں حد سے متجاوز محبت کہ جس میں ایک دوسرے سے جدا رہنا ممکن نہ رہے اس کے بارے میں  حکم بتلایا گیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب