جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

زنا كى بنا پر كنواہ پن كھونےكے بعد حرام تعلقات سے توبہ

104492

تاریخ اشاعت : 08-11-2008

مشاہدات : 14659

سوال

ميرے ايك ايسے نوجوان سے تعلقات تھے جس نے ميرا كنوارہ پن ختم كر ديا تھا، اور اب ميں كنوارى نہيں رہى، ميں اب اس فعل سے توبہ كر چكى ہوں اور اللہ سے دعا ہے كہ وہ ميرى توبہ قبول فرمائے، اور اس نوجوان نے مجھے شادى كا پيغام بھيجا ہے ليكن وہ اسلامى تعليمات كا پابند نہيں، بلكہ كسى بھى نوجوان كى طرح حشيش اور شراب اور سگرٹ نوشى كرتا ہے.
اس نے ميرے ساتھ جو كچھ كيا ہے اس كى وجہ سے ميرے ليے زيادہ بہتر ہے اب ميں كيا كروں، يا ميں اسے چھوڑ كر آپريشن كے ذريعہ بكارت كا پردہ صحيح كروا كر كسى اور نوجوان سے شادى كر لوں جو اسلامى تعليمات پر عمل كرنے والا ہو ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميں اس زنا سے حاملہ بھى تھى اور حمل ضائع كروا ديا تھا، ميرى توبہ كى سچائى كا اللہ كو ہى علم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

زنا كبيرہ گناہ ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا تك لے جانے والے سب اسباب بھى حرام كيے ہيں، اس كا مرتكب ہونے والے كے ليے حد لگانا مشروع كى اور آخرت زانيوں كو عذاب كى وعيد سنائى گئى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ يقينا يہ بہت بڑى بے حيائى ہے اور بہت ہى برى راہ ہے الاسراء ( 32 ).

ابن جرير طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لا تقربو " اے لوگو قريب مت جاؤ.

زنا كے قريب مت جاؤ يقينا يہ بہت بڑى بےحيائى ہے "

اللہ تعالى فرما رہے ہيں يہ زنا بہت بے حيائى ہے.

اور بہت برى راہ ہے .

اللہ تعالى فرما رہے ہيں: زنا كى راہ بہت برى راہ ہے؛ كيونكہ يہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كرنے والوں كى راہ ہے، اور اللہ كے حكم كى مخالفت كرنے والوں كى راہ ہے اس ليے يہ بہت برى راہ ہے جس پر چلنے والے كو جہنم ميں دھكيل ديتى ہے.

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 17 / 438 ).

شيخ عبد الرحمن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زنا كے قريب نہ جانے كى نہى مجرد زنا كے ارتكاب كى نہى سے زيادہ بليغ ہے؛ كيونكہ يہ نہى زنا كے تمام اسباب اور دواعى كى نہى كو شامل ہے كيونكہ:

( جو چراگاہ كے ارد گرد گھومتا ہے خدشہ ہے كہ وہ اس كے اندر بھى چلا جائيگا ) خاص كر اس معاملہ ميں جس كا داعى اكثر نفوس ميں بہت قوى ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا اور اس كى قباحت كا وصف بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے: " يہ بہت ہى بڑى فحاشى ہے " يعنى يہ شرع اور عقل اور فطرت ميں بھى قبيح اور برا سمجھا جاتا ہے، كيونكہ يہ اللہ كے حق كے خلاف جرات ہے، اور اسى طرح عورت كا حق بھى اور عورت كے اہل و عيال يا اس كے خاوند كے حق كے خلاف ہے، اور پھر بستر خراب كرنا اور نسب ميں اختلاط كا باعث ہے، اس كے علاوہ كئى ايك خرابيوں كا باعث ہے.

اور فرمان بارى تعالى:

اور يہ بہت ہى برى راہ ہے:

يعنى وہ راہ جو اس عظيم گناہ پر جرات كرنے كى راہ ہے وہ بہت ہى برا راہ ہے.

ديكھيں: تفسير السعدى ( 457 ).

اور آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 76060 ) اور ( 20983 ) اور ( 95754 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

حمل ضائع كرانے كے متعلق يہ ہے كہ: اگر تو بچے ميں روح پھونكى جا چكى تھى تو يہ جرم زنا كے علاوہ ايك اور جرم ہے، ليكن اگر اس ميں ابھى روح نہيں پھونكى گئى تھى تو معاملہ كچھ آسان ہے.

اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 11195 ) اور ( 13319 ) اور ( 13331 ) اور ( 90054 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

سوم:

ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو توبہ كرنے كى توفيق نصيب فرمائى، اور ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ كى توبہ سچى اور پكى ہو، سچى توبہ كى شروط ميں يہ شامل ہے كہ:

جو جرم كيا ہے اس پر انسان نادم ہو.

اور فورى طور پر اس فحاشى كو چھوڑنا.

اور ہر اس سبب سے ہٹنا جو اس فحاشى كى طرف لے جائے، چاہے وہ ٹيلى فون ہو يا خط و كتاب، يا وعدے.

اور اسى طرح توبہ كى شروط ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

آئندہ اس كام كى طرف نہ لوٹنے كا عزم كيا جائے.

اس كے علاوہ آپ زيادہ سے زيادہ اعمال صالحہ كريں نماز روزہ اور قرآن مجيد كى تلاوت زيادہ سے زيادہ كريں تا كہ ايمان ميں قوت پيدا ہو اور آپ كے نفس ميں تقوى پيدا ہو سكے.

اور نيكياں برائيوں كو ختم كر ديتى ہيں، اور سچى توبہ پہلے سارے گناہوں كو ختم كر ديتى ہے، اور برائياں نيكيوں ميں بدل دى جاتى ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى نے شرك جيسے جرائم كا ذكر كرنے كے بعد فرمايا ہے:

سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 67 - 70 ).

چہارم:

رہا آپ كا اس مجرم سے شادى كرنے كا مسئلہ:

تو آپ كو علم ہونا چاہيے كہ زانى مرد اور زانى عورت كى شادى صحيح ہونے كى شرط ميں سچى توبہ شامل ہے اور آپ كے سوال سے جو ظاہر ہوتا ہے كہ اس نوجوان نے اپنے فعل سے توبہ نہيں كى، بلكہ وہ اپنى اس پہلى بيمارى سے اور زيادہ بيماريوں ميں پڑ گيا ہے اس كى حالت برى ہو چكى ہے، وہ حشيش اور نشہ كرنے كا عادى ہے، اور ہمارے خيال كے مطابق ـ اور ايسا ہى ہے ـ جو اس حالت ميں ہو وہ نماز كا پابند نہيں ہوتا، اگر ہمارا يہ خيال سچا ہے تو پھر يقينا اس شخص سے شادى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اسے بطور خاوند قبول كرنا جائز ہوگا؛ كيونكہ نماز ترك كرنا كفر اور اسلام سے خروج كا باعث ہے، اور كسى مسلمان عورت كا كافر سے نكاح حلال نہيں.

زانى كے ساتھ نكاح كے مسئلہ ميں قول كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 85335 ) اور ( 87894 ) اور ( 96460 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتى ہيں.

پنجم:

پردہ بكارت يعنى كنوارہ پن پيدا كرنے كا آپريش كرانے كے متعلق گزارش ہے كہ ايسا كرنا حرم ہے، اس ميں دھوكہ اور خاوند كے ليے فراڈ ہے جو آپ كے ساتھ شادى كرنا چاہتا ہے.

اس مسئلہ كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 844 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

اور اس حرام تعلق كى بنا پر آپ كى بكارت زائل ہونے كا خاوند كو بتانا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں اپنے آپ كو رسوا كرنا ہے، اور مسلمان كو حكم ہے كہ وہ اپنے آپ پر پردہ ڈالے، آپ كے ليے اپنى كلام ميں توريہ كرنا ممكن ہے، اور يہ معروف ہے كہ بعض اوقات پردہ بكارت جماع كے بغير بھى زائل ہو جاتا ہے، اس ليے اسے توريہ ميں بيان كرنا ممكن ہے.

اس كے ليے آپ سوال نمبر ( 42992 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

اس شرط پر كہ اس شخص كو سچى توبہ كرنے كى نصيحت كى جائے، اور نماز كى پابندى كرنے كا كہا جائے، اگر وہ اس ميں كوشش كرے اور اس كى حالت سے سچائى ظاہر ہو اور اس نے توبہ ظاہر كى اور نماز كى پابندى كرنے لگے تو اسے بطور خاوند قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ اور بلا شك و شبہ يہ حل آپ كے زيادہ آسان اور پردہ كا باعث ہے، ليكن كون ہے جو اس كى صدق و سچائى بيان كرے؟!

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے، اور آپ كے معاملے كى اصلاح كرے، اور ہم اور آپ پر دنيا و آخرت ميں پردہ پوشى كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب