سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اگر خاوند ہى ولى ہو تو كيا وہ اپنا نكاح خود كر سكتا ہے ؟

سوال

ميں اپنے چچا كى بيٹى سے شادى كرنا چاہتا ہوں، شرعى وكالت كى بنا پر اس كا ولى بھى ميں ہوں اور اس سے شادى كى رغبت ركھتا ہوں، ہمارے عصبہ رشتہ دار نہيں اور نہ ہى بھائى ہيں، اور كوئى ايسا شخص نہيں جو اس كا ولى بن سكے.
كيا ميں اسے يہ كہہ سكتا ہوں كہ ميں نے تيرى شادى اپنے ساتھ كى، اور اس ميں گواہ موجود ہوں اور وہ لڑكى مجھے كہے ميں نے قبول كيا، يا كہ ميں نكاح رجسٹرار كو وكيل بنا دوں يا مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر عورت كا نكاح ميں ولى عورت كے چچا كا بيٹا ہو اور وہ اس سے شادى كرنا چاہے اور عورت اس سے شادى پر راضى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كا وہ ولى جس سے اس كا نكاح حلال ہے وہ چچا كا بيٹا، يا ولى بنايا گيا، يا حكمران، يا سربراہ جب عورت اسے نكاح كرنے كى اجازت دے تو اسے يہ حق حاصل ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 360 ).

اس حالت ميں وہ اپنے اور عورت كى جانب سے نكاح كى ذمہ دارى ادا كريگا، كيونكہ وہ اس عورت كا ولى ہے، تو وہ كہے گا: ميں نے تيرے ساتھ شادى كى، يا پھر ميں نے اپنى شادى فلان عورت كے ساتھ كى، اس طرح كى عبارت كہےگا.

اس ميں يہ ضرورت نہيں كہ عورت قبول كے الفاظ بولے كيونكہ اس كا ايجاب يعنى مرد كا ايجاب قبول كو متضمن ہے، اس ميں عورت كے قبول كے الفاظ كہنے كى كوئى ضرورت نہيں كيونكہ عورت عقد نكاح كى ذمہ دار نہيں بن سكتى نہ اپنے نكاح كى اور نہ كسى دوسرے كى، بلكہ نكاح تو اس كا ولى كريگا.

اور اسے اپنا وكيل بنانا بھى جائز ہے جو اس كا نائب بن كر نكاح كرے، چاہے يہ وكيل نكاح رجسٹرار ہو يا كوئى اور.

اس صورت ميں اس كا وكيل يہ كہےگا: ميں نے فلان عورت كا تيرے ساتھ نكاح كيا، تو وہ كہے ميں نے قبول كيا، اس طرح يہ نكاح ہو جائيگا، يہ دونوں امر صحابہ كرام سے بھى وارد ہيں.

امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر ولى ہى خود رشتہ طلب كرنے والا ہو كے بارہ ميں باب.

مغيرہ بن شعبہ نے ايك عورت سے منگنى كى تھى جس كے وہ خود ہى لوگوں ميں قريبى تھے، انہوں نے ايك دوسرے شخص كو حكم ديا جس نے اس كى ان كے ساتھ شادى كر دى.

اور عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى نے ام حكيم بنت قارط سے كہا تھا: كيا تم اپنا معاملہ ميرے سپرد كرتى ہو ؟

تو وہ كہنے لگى: جى ہاں، تو عبد الرحمن نے كہا ميں نے تجھ سے شادى كى.

اور عطاء رحمہ اللہ كہتے ہيں: گواہ رہو كہ ميں نے تجھ سے نكاح كيا، يا پھر اپنے قبيلہ كے كسى شخص كو حكم دے " انتہى

علامہ البانى رحمہ اللہ نے مغيرہ بن شعبہ اور عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہم كے اثر كو صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: ارواء الغليل ( 1854 ) اور ( 1855 ).

يہ جاننا ضرورى ہے كہ دونوں حالتوں ميں نكاح پر گواہ بنانا ضرورى ہيں، نكاح كے اركان اور اس كى شروط كا مطالعہ كرنے كے ليے سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب