الحمد للہ.
برقی جھٹکے دے کر حشرات مارنے والے مشہور و معروف آلات جو آج کل رائج ہیں ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں:
1- شریعت میں آگ سے کسی چیز کو مارنا منع ہے، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک آگ کا عذاب صرف اللہ تعالی ہی دے سکتا ہے) بخاری: (3016)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چیونٹیوں کی ایک آبادی دیکھی جسے کچھ صحابہ نے آگ سے جلا دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک یہ بات بالکل بھی مناسب نہیں ہے کہ آگ کے پروردگار کے علاوہ کوئی اور بھی آگ کا عذاب دے) ابو داود: (2675) اسے نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین (519) میں صحیح کہا ہے اور اسی طرح البانی نے سلسلہ صحیحہ میں (487) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ برقی جھٹکے آگ نہیں ہوتے؛ کیونکہ بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے کسی بھی چیز کے خلیے انتہائی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور فوری طور پر خون کی رگیں پھٹ جاتی ہیں ، اور اگر کرنٹ زیادہ قوت میں ہو تو اس کی وجہ سے مقتول کے جسم کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات کوئلہ بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے آگ سے جلایا گیا ہو؛ لیکن حقیقت میں وہ کرنٹ سے جلا ہوتا ہے آگ سے نہیں۔
2- موذی حشرات کو ختم کرنے کیلیے اس آلے کی افادیت کی بنا پر اس کی ضرورت ہے۔
چنانچہ اس بارے میں معاصر اہل علم کی جانب سے اس آلے کو استعمال کرنے کی اجازت کا فتوی موجود ہے۔ جیسے کہ:
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا :
"حشرات کو بجلی کے جھٹکوں سے قتل کرنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے انداز سے قتل کرنے اور اچھے انداز سے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔"
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اگر اس آلے سے مارے جانے والے حشرات واقعی موذی ہوں اور انہیں ختم کرنے کے لیے بجلی کے جھٹکوں یا اسی طرح کے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑیں تو ایسا کرنا جائز ہے نیز اس صورت کو ضرورت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے استثنا حاصل ہو گا جس میں کسی چیز کو مارنے کے لیے قابل راحت ذریعہ استعمال کرنے کا حکم ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان عام ہے: (پانچ جانوروں کو حدود حرم کے اندر اور باہر ہر جگہ قتل کر دیا جائے گا: کوا، گدھ، بچھو، چوہا، اور کاٹنے والا کتا) بخاری ، مسلم
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکھی کو ڈبو کر نکالنے کا حکم دیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ مکھی ڈبونے سے مر جائے" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (26/192)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ان آلات کے متعلق "فتاوی نور علی الدرب : حیوانات: صفحہ 2" میں کہنا ہے کہ:
"کئی اعتبار سے انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے:
پہلی وجہ: بجلی کے جھٹکے آگ نہیں ہوتے، البتہ بجلی کے جھٹکوں سے جان چلی جاتی ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ اس آلے پر کاغذ رکھیں تو اسے آگ نہیں لگتی۔
دوسری وجہ: جس شخص نے بھی یہ آلہ تیار کیا ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مچھروں اور حشرات کو آگ سے عذاب دے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی اذیت سے انسان محفوظ ہو جائے، جبکہ حدیث میں ہے کہ آگ کا عذاب دینے سے ممانعت ہے، اور اس شخص نے ان کی تکلیف سے بچنے کے لیے انہیں مارا ہے۔
تیسری وجہ: عام طور پر ان حشرات کو صرف اسی آلے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے یا اس کا متبادل ایسی ادویات ہیں جن کی بد بو ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات ان سے انسانی جسم کو بھی نقصان پہنچتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کی کھجوریں جلا دی تھیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کھجور کا درخت عام طور پر پرندوں، یا حشرات یا کیڑے مکوڑوں سے خالی نہیں ہوتے۔" ختم شد
نیز ابن عثیمین رحمہ اللہ کا "لقاءات الباب المفتوح" (نمبر: 59/ سوال نمبر: 12) میں کہنا ہے کہ:
"ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ آگ کے ذریعے عذاب دینے کے زمرے میں شامل نہیں ہوتا؛ کیونکہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے حشرات کرنٹ لگنے سے مرتا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ کاغذ لا کر اس آلے پر رکھ دیں تو یہ آلہ کاغذ کو نہیں جلاتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ نہیں ہے، بلکہ کرنٹ ہے، جیسے کہ اگر کوئی انسان ننگی تار کو ہاتھ لگا دے تو جلے بغیر مر جاتا ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم.