الحمد للہ.
شادى اللہ تعالى كى نعمتوں ميں ايك نعمت اور اس كى نشانيوں ميں ايك نشانى شمار ہوتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى، يقيناً اس ميں غور و فكر كرنے والوں كے ليے بہت سى نشانياں پائى جاتى ہيں الروم ( 21 ).
اور پھر اللہ عزوجل نے لڑكيوں كے اولياء كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنے ماتحت اور ولايت ميں موجود عورتوں كى شادى كر دينے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
تم ميں سے جو مرد اور عورت بے نكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى، اگر وہ مفلس اور تنگ دست بھى ہوں گےتو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى بنا دے گا، اور اللہ تعالى كشادگى والا اور علم والا ہے النور ( 32 ).
اور يہ اس ليے كہ نكاح پر بہت عظيم مصلحت مرتب ہوتى ہے، مثلا امت ميں كثرت، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا باقى نبيوں كے ساتھ اپنى امت كى وجہ سے فخر كرنا، اور مرد و عورت كو ايك طرح كے حرام كام ميں پڑنے سے محفوظ كرنا ہے.. اس كے علاوہ اور بھى بہت عظيم مصلحتيں پائى جاتى ہيں.
ليكن بعض اولياء اور ذمہ داران نے شادى ميں ركاوٹ كھڑى كر ركھى ہيں، اور وہ اكثر حالات ميں شادى كےحصول كے ليے ركاوٹ اور آڑ بن چكے ہيں، وہ اس طرح كہ بہت زيادہ مہر كا مطالبہ كرتے ہيں، اور اتنا مہر لينے كى كوشش كرتے ہيں جو شادى كى رغبت ركھنے والے نوجوان كى استطاعت سے بھى باہر ہوتا ہے، حتى كہ بہت سارے شادى كى رغبت ركھنے والوں ميں اب شادى ايك بہت ہى مشكل اور مشقت والے كاموں ميں شمار ہونے لگى ہے.
اور پھر مہر ايك ايسا حق ہے جو شريعت اسلاميہ نے عورت كے ليے فرض كيا ہے، تا كہ وہ اس عورت ميں مرد كى رغبت كى تعبير ثابت ہو، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو النساء ( 4 ).
اس كا يہ معنى نہيں كہ عورت كو ايك سامان تجارت شمار كر ليا جائے كہ وہ فروخت ہونے لگے، بلكہ يہ مہر تو عزت اعزاز كا نشان ہے، اور شادى كے عزم اور حقوق كى ادائيگى اور مشقت برداشت كرنے كى دليل ہے.
شريعت مطہرہ نے كوئى ايسى مقدار متعين نہيں كى جس سے مہر تجاوز نہ كر سكتا ہو، ليكن اس كے باوجود شريعت مطہرہ نے مہر كم ركھنے اور اس ميں آسانى پيدا كرنے كى رغبت دلائى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سب سے بہتر نكاح وہ ہے جو آسان ہو "
اسے ابن حبان نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3300 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" سب سے اچھا اور بہتر مہر وہ ہے جو آسان ہو "
اسے حاكم اور بيہقى نےروايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3279 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى كا ارادہ ركھنے والے شخص سے يہ فرمايا تھا:
" جاؤ جا كر كچھ تلاش كرو چاہے لوہے كى انگوٹھى ہى ہو "
متفق عليہ.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے اس ميں ايك اعلى مثال قائم كى حتى كہ معاشرے ميں امور كے حقائق كا رسوخ پيدا ہو جائے، اور لوگوں ميں معاملات ميں آسانى و سہولت عام ہو جائے.
ابو داود اور نسائى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ على رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا:
" ميں نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: مجھے رخصتى دے ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے كچھ دو، ميں نے عرض كيا: ميرے پاس تو كچھ بھى نہيں ہے.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
وہ تيرى حطمى درع كہاں ہے ؟
ميں نے عرض كيا: وہ ميرے پاس ہى ہے، آپ نے فرمايا: اسے وہى درع ہى دے دو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2125 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3375 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى حديث نمبر ( 3160 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى اور اہل جنت كى عورتوں كى سردار كا مہرتو يہ تھا.
جو اس بات كى دليل اور تاكيد كرتا ہے كہ دين اسلام ميں فى ذاتہ مہر مقصود نہيں.
ابن ماجہ ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے فرمايا:
" تم عورتوں كے مہر ميں غلو اور زيادتى مت كرو، كيونكہ اگر يہ كوئى دنيا كى عزت و اچھائى ہوتى يا پھر اللہ كے ہاں تقوى ہوتا تو تم ميں سے اس كے سب سے زيادہ اولى اور حقدار محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہوتے، آپ نے اپنى كسى بھى بيوى كو بارہ اوقيہ سے زيادہ مہر نہيں ديا، اور نہ ہى آپ كى بيٹيوں ميں سے كسى كو اس سے زيادہ ديا گيا، اور مرد اپنى بيوى كا بہت زيادہ مہر ادا كرتا ہے حتى كہ وہ اس عورت كے ليے مرد كے دل ميں عداوت بن جاتا ہے، اور وہ كہتا ہے مجھ پر تو تيرى وجہ سے بہت بوجھ ڈالا گيا "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ( 1532 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
( لاتغالوا ) يعنى: مہر زيادہ كرنے ميں مبالغہ مت كرو
( و ان الرجل ليثقل صدقۃ امراتہ حتى يكون لھا عداوۃ في نفسہ ) يعنى: يہ مہر ادا كرتے وقت وہ اپنے دل ميں اس سے عداوت ركھے گا كہ اس كا مہر بہت زيادہ تھا، يا جب وہ اس مہر كے متعلق سوچے اور اس كى مقدار كو ديكھے.
( و يقول قد كلفت اليك علق القربۃ ) وہ رسى جس سے مشكيزہ باندھا جاتا ہے يعنى ميں نے تيرى وجہ سے ہر چيز برداشت كى حتى كہ وہ رسى بھى جس سے مشكيزہ لٹكايا اور باندھا جاتا ہے " اھـ
ديكھيں: حاشيۃ السندى ابن ماجہ
بارہ اوقيہ چار سو اسى درہم كے برابر ہے يعنى تقريبا ايك سو پنتيس ريال ( 135 ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں اور بيٹيوں كا مہر اتنا ہى تھا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چنانچہ جس شخص كو اس كا دل اپنى بيٹى كا مہر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں سے زيادہ كرنے كى كہے تو وہ جاہل و احمق ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹياں ہر لحاظ سے افضل ہيں، اور وہ سب عورتوں سے ہر صفت ميں افضل ہيں، اور اسى طرح امہات المومنين بھى ليكن اس كے باوجود ان كا مہر زيادہ نہ تھا، يہ تو قدرت و استطاعت ہونے كے باوجود اور آسان بھى تھا، رہا فقير و تنگ دست وغيرہ تو اس كو چاہيے كہ وہ مہر اتنا ہى دے جتنى استطاعت ركھتا ہے اور اس ميں اس كو مشقت نہ ہو " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 194 ).
اور شيخ الاسلام كا يہ بھى كہنا ہے:
" امام احمد كى روايت يہ تقاضا كرتى ہے كہ چار سو درہم مہر مستحب ہے، استطاعت اور آسانى كے ساتھ يہى مستحب ہے اس مقدار تك ہو سكتا ہے اس سے زائد نہيں " اھـ
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ميں مہر كم ہونے كے دلائل پر كچھ احاديث بيان كي ہيں اور اس كى كم از كم حد متعين نہيں اس كے بعد كہتے ہيں:
يہ احاديث اس كو متضمن ہيں كہ كم از كم مہر كى تعيين نہيں كى جا سكتى... اور مہر ميں زيادتى اور مبالغہ كرنا مكروہ ہے اور يہ قلت بركت اور قلت عمر كا باعث ہے " اھـ
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 178 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ اب لوگ جو كر رہے ہيں اور مہر زيادہ كرتے اور مبالغہ كرتے ہيں يہ شريعيت كے مخالف ہے.
اور مہر كم ركھنے اور اس ميں مبالغہ نہ كرنے كى حكمت واضح ہے:
وہ يہ كہ لوگوں كے ليے شادى كرنا آسان ہو تا كہ وہ شادى كرنا ترك نہ كر ديں، اور اخلاقى اور معاشرتى برائيوں ميں نہ پڑ جائيں.
مہر زيادہ كرنے كے كچھ نقصانات معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 12572 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .