جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بیوی نے ذو الحجہ کے نو روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، اور اب خاوند اسے منع کرتا ہے۔

سوال

سوال: ایک عورت نے تقریبا شادی سے تین سال پہلے نذر مانی تھی کہ ہر سال ذو الحجہ کے پہلے نو دنوں کا روزہ تسلسل کیساتھ رکھوں گی، اسے نذر ماننے کے بارے میں کراہت کا علم نہیں تھا، اور اسے اب یہ یاد نہیں ہے کہ شادی کے بعد کے آنے والے سالوں کو مستثنی کیا تھا یا نہیں، یا شادی کے بعد روزے رکھنے کا ارادہ خاوند کی اجازت پر معلق کیا تھا یا نہیں، اب اسکی شادی ہوچکی ہے، اور اسکا خاوند اسے روزے رکھنے سے روکتا ہے، کیونکہ یہ نفلی روزے ہیں، اور وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر روزے رکھ بھی نہیں سکتی، اور ویسے بھی صحت خراب ہونے کی وجہ سے وہ روزے نہیں رکھ سکتی۔
اب اسکا سوال ہے کہ : کیا اسے اپنی اس نذر کو پورا کرنا ہوگا، حالانکہ اسکا خاوند اس سے روکتا ہے، اور صحت بھی ساتھ نہیں دیتی، یا قسم کا کفارہ دے کر اپنی اس نذر سے جان چھڑا لے، یا پھر بعد میں کسی بھی وقت الگ الگ روزے رکھ کر انکی قضا دے ، دے یا پھر کیا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نذر ماننے کے بارے میں یہ تنبیہ ضروری ہے کہ نذر مکروہ ہے، یا نذر میں داخل ہونا حرام ہے، کیونکہ اس سے مسلمان پر ایسی چیز لازم ہوجاتی ہے کہ بسا اوقات مسلمان اسے ادا نہیں کرسکتا، یا مشقت اٹھانی پڑتی ہے، حالانکہ [نذر ماننے سے پہلے ] وہ اس پر ضروری نہیں تھی۔

اور ایک مسلمان کو نیکی کے کام اور روزے وغیرہ نذر مانے بغیر ہی کرنے چاہئیں، اسی میں انسان کیلئے آزادی ہوتی ہے کہ اگر چاہے تو چھوڑ بھی سکتا ہے، اور اگر کسی نے نذر مان ہی لی ہے تو اب اس نے اپنے آپ پر ایک کام کو لازم کر لیا ہے، اس لئے نذر پوری کرنا واجب ہےبشرطیکہ نیکی کے کام کی نذر ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جو شخص یہ نذر مانے کہ اللہ کی اطاعت گزاری کریگا تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (اپنی نذر پوری کرو)، اور فرمانِ الہی ہے: (يُوفُونَ بِالنَّذْرِ)[مؤمنین] نذر پوری کرتے ہیں۔ [ الإنسان: 7]اور یہ بھی فرمان الہی ہے کہ: (وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ) اور وہ اپنی نذریں پوری کریں۔ [ الحج: 29] اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: (وَمَا أَنفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ) اور تم جو بھی خرچ کرو، یا نذر مانو تو یقینا اللہ تعالی اسے جانتا ہے۔ [البقرة: 27]

اگر نیکی کرنے کی نذر مان لی جائے، تو نذر پوری کرنا، اور اس پر عمل کرنا واجب ہوگا، لیکن نذر ماننے سے پہلے ایک مسلمان کو چاہئے کہ نذر نہ مانے۔

سائلہ نے جو ذکر کیا ہے کہ اس نے ذو الحجہ کے پہلے نو دن مسلسل روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، تو یہ نیکی کی نذر ہے، اسے پورا کرنا لازمی ہے، اور اسکا خاوند اس سے روک بھی نہیں سکتا، کیونکہ اسکا خاوند اسے نفلی روزے رکھنے سے منع کرتا ہے، جبکہ کسی خاص وقت کیساتھ مختص ، واجب روزوں سے روکنے کی خاوند کو اجازت نہیں ہے، چونکہ خاتون نے ان معین ایام میں روزے رکھنے کی نذر مانی ہے تو اس پر نذر پوری کرنا لازمی ہوگا۔

اور انکا کہنا کہ: " صحت خراب ہونے کی وجہ سے وہ روزے نہیں رکھ سکتی " اگر تو انکا مطلب یہ ہے کہ روزے رکھنے سے مشقت ہوتی ہے، تو یہ نذر پوری کرنے سے مانع نہیں ہے، اگرچہ روزے رکھنے میں مشقت ہے، لیکن اسے روزے رکھنے ہونگے، کیونکہ اس نے خود اپنے اوپر روزے لازم کئے تھے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ روزے رکھنے سے مشقت تو اٹھانی پڑتی ہے، حتی کہ صحت مند افراد کو بھی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور اگر انکا مقصد یہ ہے کہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتی ، تو جس سال اس نے بیماری، یا جسمانی کمزوری کی بنا پر روزے نہیں رکھے ، اس سال قسم کا کفارہ دے گی، اور اگر آئندہ سال روزے رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو روزے رکھنے پڑیں گے، ہر سال کیلئے یہی طریقہ ہوگا۔

چنانچہ اس خاتون کیلئے نذر ترک کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اس نے خود اپنے اوپر لازم کی ہے، اور ایک مسلمان کو چاہئے کہ نذر کو تماشا مت بنائے، کہ ایک بار نذر ماننے کے بعد پھر اس سے بچنے کیلئے راستے اور حیلے بہانے تلاش کرتا پھرے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نذر بھی واجباب میں شامل ہے، چنانچہ اس سے خلاصی کسی واضح شرعی عذر کی بنا پر ملے گی۔

اور اگر ان دنوں میں حیض آگیا تو پھر روزے ترک کرنے کی اجازت ہوگی، کیونکہ حیض کا آجانا ایک شرعی عذر ہے، اسی طرح اگر خاتون بیمار تھی، تو بیماری کی وجہ سے ان دنوں کے روزے ساقط ہوجائیں گے، لہذا اگر یہ دن آئیں اور اس خاتون کو کوئی شرعی عذر اور حیض وغیرہ لاحق نہ ہوتو اس پر روزے رکھنا لازم ہوگا۔انتہی .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب