سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

والدين لباس ٹخنوں سے نيچے كرنے پر اصرار كرتے ہيں

10534

تاریخ اشاعت : 10-08-2008

مشاہدات : 7625

سوال

ميں نے بہت سارى احاديث سنى اور پڑھى ہيں كہ سلوار وغيرہ ٹخنوں سے اوپر ركھنى واجب ہے، اور ميں يہ سنت پورى كر رہا ہوں، ليكن اگر گھر والے چاہتے ہوں كہ ان كا بيٹا ايسا نہ كرے تو پھر حكم كيا ہو گا ؟
ميرے ليے يہ معاملہ خلط ملط ہو گيا ہے، ميرے والدين بہت ناراض ہوتے ہيں كہ ميں چھوٹى پتلونيں پہنتا ہوں، اور والدين كو ناراض كرنا كبيرہ گناہ ہے، ميرا گزارش ہے كہ آپ اس كى وضاحت كريں كہ مجھے كيا فيصلہ كرنا چاہيے اور ميں اس كے متعلق كيا كروں ؟
اسى طرح ميرى يہ بھى گزارش ہے كہ آپ يہ بھى ذہن ميں ركھيں كہ ان شاء اللہ كہ ملازمت ملنے كى صورت ميں يہ لباس ملازمت كے مواقع پر بھى اثر انداز ہوتا ہے، آپ مجھے يہ بھى بتائيں كہ ميرے ليے والدين اور گھر والوں كى بات ماننى كب واجب ہے، يا كہ مجھے سنت كى پيروى كرنى چاہيے، اس موقف كے متعلق ميرے دل ميں ہر وقت كھٹكا رہتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كو اسبال كہا جاتا ہے، اور يہ حرام ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ٹخنوں سے نيچے تہہ بند اور چادر جہنم ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5787 ).

اور اگر كوئى يہ كہے كہ:

ميں اپنا كپڑا ( يا پينٹ وغيرہ ) تكبر سے نيچے نہيں ركھتا بلكہ يہ عادت سى بن چكى ہے ؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنے كى سزا آگ ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے، اور اگر اسبال يعنى كپڑا ٹخنوں سے نيچے ہونے كے ساتھ اس تكبر اور اكڑ بھى ہو تو پھر اس كى سزا اور بھى زيادہ اور شديد ہے اور وہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوئى ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اسبال چادر، اور قميص اور پگڑى ميں ہے، جس كسى نے بھى اس ميں سے كچھ بھى تكبر كے ساتھ اتراتے ہوئے كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اسكى جانب ديكھے گا بھى نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4085 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5334 ) اس كى سند صحيح ہے.

دوم:

جب آپ كو علم ہو چكا كہ سلوار يا كوئى كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنا حرام ہے، تو آپ اور ہر مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ حرام كام كے ارتكاب سے اجتناب كرے، اور خاص كر كبيرہ گناہ كے تو نزديك بھى نہيں جانا چاہيے.

اور پھر لوگوں كو راضى اور خوش ركھنے كے ليے حرام كام كا ارتكاب كرنا ويسے ہى جائز نہيں، چاہے وہ آپ كے والدين ميں سے ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ سبحانہ و تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں اطاعت نہيں، بلكہ اطاعت تو نيكى كے كاموں ميں ہے "

اسے امام نسائى اور امام ابو داود نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 3921 ) اور سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 181 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ياد ركھيں:

" جس كسى نے بھى اللہ تعالى كو راضى كرنے كے ليے لوگوں كو ناراض كيا تو اللہ تعالى اسے لوگوں سے كافى ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے لوگوں كى راضى ركھنےكے ليے اللہ تعالى كو ناراض كيا تو اللہ تعالى اسے لوگوں كے سپرد كر ديتا ہے "

اسے امام ترمذى نے كتاب الزھد حديث نمبر ( 2338 ) ميں روايت كيا ہے.

اور آپ كا يہ خوف كہ كہيں ملازمت كا موقع نہ ضائع ہو جائے تو آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ رزق تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہے، اور كوئى بھى جان اس وقت تك مرے گى نہيں جب تك وہ اپنا رزق پورا نہ كر لے.

اور آپ اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان بھى ياد ركھيں:

اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہےگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

اور يہ خدشہ آپ كے ليے نافرمانى كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا كہ آپ كے ليے نافرمانى كرنى جائز ہو جائيگى.

اور اگر كوئى شخص يہ كہے كہ:

اگر ميں حرام كام كرنے پر مجبور ہو جاؤں تو كيا ميرے ليے يہ فعل جائز ہو جائيگا ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

يہ يقين كرنا ضرورى ہے كہ واقعتا مجبورى ہے بھى كہ نہيں، اگر تو معاملہ مجبورى تك پہنچ گيا ہے يعنى كوئى اس پر جبر كر رہا ہے اور انسان اسے كرنے پر مجبور ہو تو پھر اسكے ليے صرف اتنا جائز ہو گا جو اس كى ضرورت پورى كرے، اس سے زائد نہيں.

اس كى مثال يہ ہے:

باپ بيٹے سے كہے اگر تو نے اپنا كپڑا يا پينٹ ٹخنوں سے اونچى كى تو ميں تمہيں گھر سے نكال دونگا، اور بيٹے كے پاس كوئى اور گھر نہيں جہاں وہ رہائش اختيار كر سكتا ہو، اور بيٹے كو يقين ہو يا اس كا ظن غالب يہ ہو كہ حقيقتا والد اپنى دھمكى پورى كريگا، تو اس حالت ميں بيٹے كے ليے ٹخنوں سے نيچے كپڑا كرنا جائز ہو گا حتى كہ اللہ تعالى اس كے ليے وہاں سے نكلنے كى كوئى راہ بنا دے.

سوم:

اور آپ كا يہ كہنا كہ: " ميں يہ سنت پورى كر رہا ہوں "

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ كپڑا اور پينٹ وغيرہ ٹخنوں سے اونچا ركھنا واجب ہے، نہ كہ صرف سنت، ليكن سنت يہ ہے كہ كپڑا اور تہہ بند سلوار وغيرہ نصف پنڈلى تك ركھى جائے، اور انسان كو اس سنت ميں اختيار ہے كہ وہ چاہے اس پر عمل كرے يا چھوڑ دے، كيونكہ سنت كى تعريف علماء نے يہ كى ہے:

" جس پر عمل كرنے والے كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور ترك كرنے والے كو گناہ نہيں "

آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ جو آدھى پنڈلى تك پہنا جاتا ہے وہ تہہ بند ہے، اور توب اس طرح نہيں بلكہ اسميں سنت يہ ہے كہ آدھى پنڈلى سے لے كر ٹخنوں تك ہو، اور اسى طرح پينٹ بھى ٹخنوں سے اوپر آدھى پنڈلى تك ركھنى چاہيے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تہہ بند كا ٹخنوں ميں كوئى حق نہيں "

اسے نسائى نے كتاب الزينۃ حديث نمبر ( 3529 ) ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 4922 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد