سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تين ماہ ملك سے باہر رہنا ہو تو بھى رمضان كے روزے ركھنا لازم ہونگے ؟

سوال

ميں انشاء اللہ عنقريب كمپنى كے نئے پراجيكٹ كے سلسلہ ميں اٹلى جا رہا ہوں اور وہاں تقريبا تين ماہ تك رہوں گا، اور اسى دوران رمضان المبارك كا مہينہ بھى سايہ فگن ہو گا، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا مجھ پر اٹلى ميں ہى رمضان كے روزے ركھنا واجب ہيں يا كہ چھوڑنے بھى جائز ہيں، اور بعد ميں قضاء كر سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر كوئى شخص كہيں سفر پر جائے اور وہ وہاں تين دن سے زائد رہنے كا عزم ركھتا ہو تو جمہور علماء مالكي شافعى اور حنابلہ كے ہاں اس كے ليے روزے ركھنا اور پورى نماز ادا كرنا لازم ہے.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جس سفر ميں رخصت پر عمل كرنا جائز ہے وہ ہوگا جو عرف عام ميں سفر شمار كيا جاتا ہو، جس كى مسافت تقريبا اسى ( 80 ) كلو ميٹر بنتى ہے، اس ليے جس نے بھى اتنى يا اس سے زائد مسافت كا سفر كيا تو اسے سفر كى سہوليات اور رخصت پر عمل كرنے كا حق ہے.

يعنى وہ تين دن اور راتوں تك موزوں اور جرابوں پر مسح كر سكتا ہے، نماز جمع اور قصر كر سكتا ہے، اور رمضان المبار كے روزوں چھوڑ كر بعد ميں قضاء كر سكتا ہے.

اور اگر يہ مسافر چار يوم سے زائد رہنے كا عزم ركھتا ہو تو وہ سفر كى رخصتوں پر عمل نہيں كريگا.

اور اگر چار يا اس سے كم رہنے كا عزم ہو تو پھر اسے سفر كى سارى سہوليات حاصل ہونگى.

اور ايسا مسافر جو كسى دوسرے علاقے ميں رہتا ہو اور اسے يہ علم نہ ہو كے اس كى ضرورت اور كام كب ختم ہوگا اور اس نے وہاں رہنے كى كوئى مدت متعين نہ كر ركھى ہو تو اسے بھى سفر كى رخصتوں پر عمل كرنے كى اجازت ہے چاہے كتنى بھى طويل مدت ہو جائے، اور سفر ميں خشكى يا ہوائى يا بحرى راستے كا كوئى فرق نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 99 ).

اس بنا پر آپ كو اٹلى ميں ہى رمضان المبارك كے روزے ركھنا ہونگے اور رمضان كے مہينہ ميں ہى، اور اسى طرح اس مدت ميں آپ نماز بھى پورى ادا كرينگے، ہاں يہ ہے كہ آپ اٹلى ميں ايك شہر سے دوسرے شہر جائيں اور وہ قصركرنے كى مسافت پر ہو يعنى اسى كلوميٹر اور چار دن يا اس سے كم اقامت ہو تو نماز قصر اور جمع كر سكتے ہيں اور دوران سفر روزہ چھوڑ سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب