الحمد للہ.
"اگر عقدِ نکاح مکمل شروط اور ارکان کے ساتھ ہو، اور پھر میاں بیوی میں سے کوئی بھی فوت ہوجائے تو نکاح باقی رہتا ہے، اسی لئے دونوں ایک دوسرے کے وارث بھی بن سکتے ہیں، دلیل فرمانِ باری تعالی کا عموم ہے:
(وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمْ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ )
ترجمہ: اور تمہاری بیویوں کی اگر اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ سے تمہارا نصف حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر چوتھا حصہ ہے۔ اور یہ تقسیم ترکہ ان کی وصیت کی تعمیل اور ان کا قرضہ ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر آٹھواں حصہ ہے اور یہ تقسیم تمہاری وصیت کی تعمیل اور تمہارے قرضے کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ النساء/12"
یہ آیت اُن کے بارے میں عام ہےجن کے خاوند فوت ہوجاتے ہیں، اسی طرح یہ آیت اس بارے میں بھی عام ہے کہ وفات ہم بستری سے پہلے ہو یا بعد میں، چنانچہ نکاح ہونے کے بعد میاں بیوی میں سے کوئی ایک ہم بستری سے قبل فوت ہوجائے تو عقدِ زوجیت باقی رہتا ہے، دونوں کی آپس میں وراثت بھی ٹھیک ہے، کیونکہ آیتِ کریمہ عام ہے۔
جبکہ عدت کے حوالے سے بھی ایسی خاتون کو عدت گزارنی ہوگی، چاہے ہم بستری سے قبل ہی خاوند فوت ہوا ہو، اس لئے کہ فرمانِ باری تعالی عام ہے:
(وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا )
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ بیویوں کو چھوڑ کر فوت ہو جائیں تو ایسی بیوائیں چار ماہ دس دن انتظار کریں۔ البقرة/234
یہ آیت ہر اُس خاتون کے متعلق ہے جسکا خاوند ہم بستری سے پہلے فوت ہو یا بعد میں، اور اسے وراثت بھی ملے گی جیسے کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے" انتہی
واللہ اعلم .